خیبر: ضلع خیبر میں خواتین ایس ایچ اوز کی تعیناتی کو قبائلی روایات پر حملہ قرار دیتے ہوئے، قومی مشران نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ضلعی لیڈیز آفیسر کی تعیناتی کے پیچھے کوئی فوری ضرورت نہیں تھی، اور یہ اقدام قبائلی روایات، کلچر، دستور، اور جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
مشران کا کہنا ہے کہ لیڈیز افسر کی تعیناتی صرف قبائلی مستورات کو ‘سیردارئی’ سے باہر نکالنے کے بین الاقوامی سیکولر ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اسی وجہ سے قبائلی عمائدین، زعماء، مشران، اور علماء کرام انضمام کے بھی خلاف تھے۔
قبائلی مشران نے اس نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ، آئی جی، اور دیگر اعلیٰ حکام سے خاتون ایڈیشنل ایس ایچ او کی اور خیبر میں خواتین پولیس کی دیگر تعیناتیوں کو فوری ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔
قومی مشر و رہنما، جمعیت کے سید کبیر صاحب، چیئرمین شاہد زمان، حاجی عبد المنان آفریدی، قومی مشر حضرت ولی اور آفریدی نیوز ٹیم نے بھی سخت احتجاج کی دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ جلد ہی اس پر سخت احتجاج کیا جائے گا۔
دوسری طرف، خیبر ضلع سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی فرید شینواری کے مطابق، پورے خیبر میں صرف ایک ہی قبیلہ ہے جو اس تعیناتی کی مخالفت کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مشران کی دوغلی پالیسی ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر کے خاندانوں کی لڑکیاں پڑھتی بھی ہیں اور محکمہ تعلیم وغیرہ میں ملازم بھی ہیں۔
فرید شینواری نے مزید کہا کہ ضم سے پہلے قبائلی اضلاع میں ان عناصر کی مکمل اجارہ داری تھی، اور ضم کے بعد اب وہ مزے نہیں رہے تو وہی عناصر اب اوچھے ہتکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔