اسلام آباد: آج ملک بھر میں جب بھی صوبوں کا ذکر ہوتا ہے، سب سے پہلے صوبہ ہزارہ کا نام سامنے آتا ہے۔ ہزارہ صوبہ تحریک کے شہداء نے اپنی قربانیوں سے اس تحریک کی بنیاد رکھی ہے، اور جب کسی تحریک کی بنیاد شہداء کے خون پر ہو، تو کوئی طاقت اسے ناکام نہیں بنا سکتی۔
یہ باتیں اسلام آباد میں 5 ستمبر 2024 کو ہونے والی صوبہ ہزارہ تحریک کے رہنماؤں کی میٹنگ میں زیر بحث آئیں، جس میں ہزارہ بھر سے لوگوں نے شرکت کی۔ صوبہ ہزارہ تحریک نے فیصلہ کیا ہے کہ صوبہ ہزارہ کے قیام کے لیے بل دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے ہزارہ کے قائدین صدر، وزیراعظم، اور ملک کی مقتدر قوتوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ اس سلسلے میں مختلف کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
یہ فیصلہ چیئرمین صوبہ ہزارہ تحریک سردار محمد یوسف کی زیر صدارت سینٹر محمد طلحہ محمود کی رہائش گاہ پر منعقدہ اجلاس میں کیا گیا۔
اجلاس میں ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شائستہ جدون، مرکزی کوآرڈینیٹر پروفیسر سجاد قمر، سابق ممبران اسمبلی زر گل خان، نواب زادہ فرید خان، عبدالرزاق عباسی، کوآرڈینیٹر ایبٹ آباد، پرنس فضل حق، سابق وزیر اعجاز علی خان درانی، سابق تحصیل ناظم سید جنید قاسم، مولانا چراغ الدین شاہ، ملک سجاد اعوان، طاہر تنولی، قاری محبوب الرحمن، سید رفیع اللہ شیرازی، سردار زاہد منان، لقمان شاہ، محمد پرویز، عمر حیات خان، صدیق انظر، اور حشمت ہاشوانی نے شرکت کی۔
چیئرمین صوبہ ہزارہ تحریک سردار محمد یوسف نے بتایا کہ وہ گزشتہ چودہ سال سے صوبہ ہزارہ کے قیام کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، اور اس تحریک میں ہزارہ سے تعلق رکھنے والی تمام جماعتیں شامل ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 2019 میں صوبہ ہزارہ کا بل قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا، مگر وہ لیپس ہو گیا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ بل دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، اور اس کے لیے وزیراعظم اور تمام قومی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کی جائیں گی تاکہ عوام کی خواہشات کو ان تک پہنچایا جا سکے۔
ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شائستہ جدون کا کہنا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے فورم پر صوبہ ہزارہ کے مطالبے کو مسلسل اٹھاتی رہیں گی اور خواتین ونگ کو فعال کریں گی تاکہ خواتین بھی اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کر سکیں۔
مرکزی کوآرڈینیٹر پروفیسر سجاد قمر نے اس تحریک کو ہزارہ کے عوام کا متفقہ مطالبہ قرار دیا اور کہا کہ تحریک کو منظم کرنے کے لیے مختلف کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں، جو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اس تحریک کو بہتر طریقے سے منظم کریں گی۔