اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے انٹرا کورٹ اپیلوں کو منظور کر لیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔
بینچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بانیٔ پی ٹی آئی یہ ثابت نہیں کر سکے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں۔
عدالتِ عظمیٰ نے یہ فیصلہ پانچ صفر سے سنایا اور نیب ترامیم کو بحال کر دیا۔ عدالت نے تین ماہ بعد محفوظ کردہ فیصلے میں کہا کہ 3 رکنی بینچ کے فیصلے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نیب ترامیم آئین سے متصادم تھیں۔
کیس کا پسِ منظر
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے دورِ حکومت میں نیب قوانین میں متعدد ترامیم کی گئی تھیں، جن میں سیکشن 2، 4، 5، 6، 14، 15، 21، 23، 25 اور 26 شامل تھے۔
بانیٔ پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 5 ستمبر 2023ء کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 15 ستمبر 2023ء کو بانیٔ پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے ان ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کیں۔بانیٔ پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کیس میں ذاتی حیثیت میں دلائل دینے کی درخواست کی تھی۔
سپریم کورٹ نے 10 مئی 2024ء کو انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا، جس نے بانیٔ پی ٹی آئی کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کی اجازت دی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت مکمل کرنے کے بعد 6 جون 2024ء کو فیصلہ محفوظ کیا۔نیب ترامیم کے تحت متعدد معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے خارج کر دیے گئے تھے۔
ترامیم کے مطابق نیب 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکتا اور دھوکہ دہی کے مقدمات کی تحقیقات صرف اُس صورت میں کر سکتا ہے جب متاثرین کی تعداد 100 سے زیادہ ہو۔
نیب کے ملزم کا ریمانڈ زیادہ سے زیادہ 14 دن تک ہو سکتا تھا، جو بعد میں 30 دن تک بڑھایا جا سکتا تھا۔ان ترامیم کے تحت نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا۔
مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری ادارے نیب کے دائرہ کار سے نکال دیے گئے تھے، اور افراد یا لین دین سے متعلق زیرِ التواء تمام تحقیقات، پوچھ گچھ، اور ٹرائلز متعلقہ اداروں اور عدالتوں کو منتقل کر دی گئیں۔