مانسہرہ: ایک طرف ملک کی اعلیٰ قیادت پاکستان کی 240 ملین سے زائد آبادی کو ما حولیاتی آلودگی کی ممکنہ تباہی سے بچانے کے لیے بین الاقوامی عطیہ دہندگان سے فنڈز طلب کر رہی ہے۔
دوسری طرف تحقیقی رپورٹس 2025 تک پانی کے آنے والے بحران سے خبردار کرتی ہیں، جو تیزی سے پگھلنے والے گلیشیئرز کی وجہ سے مزید بڑھ جائے گی۔
ایسی نازک صورتحال میں ریاست اور اس کے نظام کو چلانے والوں کو نہ صرف پانی ذخیرہ کرنے کی نئی سہولیات تعمیر کرنے کے لیے اپنی جدو جہد کو تیز کرنا چایئے بلکہ قدرتی طور پر بہنے والے پانی کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
تاہم خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں واقع قدرتی پانی کی یہ ندی جس کو مانگل کہتے ہیں ریاست کے ان علمبرداروں کی غیر سنجیدہ کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس ویڈیو میں نطر آنے والا آلودہ پانی اور کچراہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح ا س قدرتی ندی کے پانی کو بتدریج کوڑا کرکٹ سے گندہ کیا جا رہا ہے اور یہ کوئی اور نہی بلکہ ایبٹ آباد ضلع کی انتظامیہ کا کام ہے۔
یہ قدرتی پانی کی ندی جو خطے میں سینکڑوں چھوٹی ندیوں کو آپس میں ملاتی ہے، اب پورے ایبٹ آباد ضلع کے ہسپتالوں بالخصوص ایوب میڈیکل کمپلیکس کے فضلے سے آلودہ ہو چکی ہے۔
یہ لاپرواہ ڈمپنگ نہ صرف انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے بلکہ ماحولیاتی صحت کے لیے بھی ایک اہم خطرہ ہے۔
ما نگل ایبٹ آباد ضلع کی حدود میں واقع خطے میں متعدد چھوٹے، صاف پانی کی ندیوں کے لیے ایک اہم کڑی کا کام کرتا ہے۔
برسوں سے، درجنوں دیہاتوں اور قصبوں کے رہائشی پینے اور جانوروں کے استعمال کے لیے اس کے کرسٹل صاف پانی پر انحصار کرتے آئے ہیں، تاہم، حالیہ برسوں میں، یہ قدیم قدرتی ندی ایک خطرناک آبی گزرگاہ میں تبدیل ہو گئی ہے، جس سے رہائشیوں اور قدرتی ماحولیاتی نظام دونوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
مقامی لوگوں اور ماحولیاتی کارکنوں کے مطابق، کچھ سرمایہ کاری کے ساتھ اس ندی کے پانی سے ایک چھوٹے ڈیم تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم انتظامیہ کی غفلت اور غیرسنجیدہ اقدامات نے نہ صرف اس ندی کے صاف پانی کو آلودہ کر دیا ہے بلکہ وہاں رہنے والے ہزاروں مقامی باشندوں اور جانورں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
رہائشیوں نے بتایا کہ طبی فضلے سے بھرے ٹرک باقاعدگی سے آتے ہیں اور خطرناک مواد کو ندی میں پھینک کر چلے جاتے ہیں۔
یہ مسلسل آلودگی نہ صرف پانی کو آلودہ کر رہی ہے بلکہ آس پاس کے علاقے کے لیے بھی خطرہ ہے، کیونکہ کمپلیکس کا ٹھوس فضلہ بھی مانگل کے کنارے پھینکا جا رہا ہے۔