جنید علی خان
ایک وقت تھا کہ جب ہمارے آباؤاجداد پھٹے پرانے کپڑوں کو رفو یا پیوند کاری کرکے دوربارہ استعمال کے قابل بنالیا کر تے تھے اور یوں طویل عرصہ تک نئے کپڑے سینے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔
کپڑوں کی یہی پائیداری تھی کہ سودا سلف لانے کیلئے بھی کپڑے کے بڑے تھیلے استعمال کئے جاتے تھے،مگرگزرتے وقت کے ساتھ تقاضے بھی بدلتے گئے اور نت نئے کپڑوں کے فیشن کی طرح پولی تھین کے شاپنگ بیگ بھی میدان میں آگئے۔
پلاسٹک سو برسوں تک ماحولیاتی نظام کا حصہ رہتا ہے جو کینسر سمیت کئی خطرناک بیماریوں کا باعث بنتا ہے، ماہرماحولیاتی امور،جاوید اقبال
پولی تھین یا پلاسٹک کے تھیلے ماحول، صحت اورزراعت کیلئے مضرہوتے ہیں تا ہم اب وہ زمانہ نہیں،لاہور میں ایک ریسرچ سینٹر سے وابستہ ماحولیاتی امور کے ماہر جاوید اقبال کہتے ہیں کہ پلاسٹک کو ماحول میں تحلیل کرنے کیلئے سو سال درکار ہوتے ہیں.
سو سالوں تک وہ ماحولیاتی نظام کا حصہ رہتا ہے،اس طرح ہوا میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی انسانی ہاضمے کومتاثر کرتی ہے اورکینسر سمیت دل و خون کی بیماریوں کا بھی سبب بنتی ہے،اسی طرح یہ پلاسٹک سمندر برد کرنے سے آبی حیات کو متاثرکرتا ہے،جبکہ تحلیل نہ ہونے کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ کرتی ہے.
باقی صوبے بھی پیروی کریں توثقافت کے فروغ کیساتھ ماحول بھی انسانی دوست بن سکتا
جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ حکومت معاشرے کو شاپنگ بیگز کے نقصانات سے بچانے کیلئے قانون کے نفاذ کو یقینی بنائے اور اس سلسلے میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سمیت ہر پلیٹ فارم پر عوام میں شعور پیدا کرنے کی ملک گیر مہم چلائی جائے،سڑکوں پر فلمی اشتہارات کے بجائے اس سلسلے میں ایک مہم چلائی جائے جس کیلئے احادیث کے ذخیرے سے استفادہ کیا جائے۔
سندھ کے ضلع مٹیاری کے علاقے بھٹ شاہ سے تعلق رکھنے والے عبدالمجیدسندھی اجرک کے تھیلے بناتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ لوگ شاپنگ بیگز کی جگہ اجرک کے تھیلے خریدیں تاکہ ایک طرف سندھی ثقافت کی ترویج ہو تو دوسری طرف شاپنگ بیگز کے بجائے کپڑے کے تھیلے استعمال میں لانے سے لوگوں کو پائیدار اور بے ضرر چیز ملے،ان کا کہنا ہے کہ لوگ ہاتھوں سے بنی اجرک کی چیزیں بہت پسند کرتے ہیں اور اندرون سندھ سمیت کراچی میں ان کی بہت مانگ ہے۔
اس کاروبار سے وابستہ رازک کے مطابق ہاتھوں سے اجرک کی تیارکا کام انتہائی محنت طلب ہوتا ہے۔ اجرک سوتی کپڑے پر ہی تیار ہو سکتی ہے جس کیلئے اس کپڑے کوکئی مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ ہاتھ سے بنی ہوئی اجرک دونوں طرف سے چھاپی جاتی ہے۔ کالا، سفید، سرخ اور نیلا رنگ اجرک کی پہچان ہے۔
اجرک تیار کرنے کیلئے کپڑے کو سرسوں کے تیل سے مضبوطی دی جاتی ہے اور پھر صابن، سوڈا اور کھارے تیل کا مصالحہ تیارکیا جاتا ہے،کپڑے میں نرمی پیدا کرنے کیلئے اسے اونٹ کے گوبرمیں رکھاجاتا ہے۔ اس کے بعد “چھر” کا مرحلہ آتا ہے۔
اس مرحلے میں کالے رنگ سے مختلف ڈیزائنوں کی چھپائی کی جاتی ہے۔اجرک کے مختلف ڈیزائن بنائے جاتے ہیں، جنہیں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ ان دلکشن ڈیزائنوں کی تیاری کیلئے مختلف بلاک کے پرنٹ استعمال کئے جاتے ہیں۔
یہ عام طور پر دو قسم کے پرنٹ بلاک پرنٹ اورخچرل پرمشتمل ہوتے ہیں،اجرک کے بنے تھیلوں اور دوسری چیزوں کی قیمتیں ان پرنٹوں کے استعمال کی وجہ سے کم یا زیادہ ہوتی ہیں۔
عبدالمجید کہتے ہیں کہ بلاک پرنٹ سستا اورخچرل مہنگا ہوتا ہے۔ بلاک پرنٹ والے اجرک کے ایک تھیلے کی قیمت دو سو روپے جبکہ خچرل والے اجرک کے ایک تھیلے کی قیمت تین سو پچاس روپے ہے۔’یہ ڈیزائن بہت پسند کیے جاتے ہیں۔
لوگ ڈیکوریشن کے طور پر بھی اسے لیتے ہیں اور روزمرہ کے کاموں کیلئے بھی انہیں استعمال میں لاتے ہیں۔
اجرک سندھی ثقافت کی پہچان ہے اور اس کے تھیلے بھی پائیدار ہوتے ہیں،اسی لئے لوگ خوشی سے انہیں خریدتے ہیں
کراچی میں اجرک نامی دکان کے منیجر کا کہنا ہے کہ یہاں اجرک کی چیزیں بہت پسند کی جاتی ہیں اور لوگ اسے بہت شوق سے خریدتے ہیں کیوں کہ اجرک سندھی ثقافت کی پہچان ہے اور اس کے تھیلے بھی پائیدار ہوتے ہیں،اسی لئے لوگ خوشی سے انہیں خریدتے ہیں۔
اسلام آباد میں ایک نامور ریسٹورنٹ کی انتظامیہ حکومتی اعلان کے بعد کپڑے کے تھیلے استعمال کرتی ہے،وہاں کے منیجر اکرم کا کہنا ہے کہ کپڑے کے تھیلے پائیدار ہیں اور ایک بار لینے کے بعد انہیں کئی بار استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق کپڑے کے ایک تھیلے کی قیمت 15 روپے ہے جبکہ شاپنگ بیگز 380 روپے فی کلو ہیں۔ وہ اس قیمت سے مطمئن نظر آتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ قیمت 10،12 روپے کر دی جائے اور کپڑے کے تھیلے بنانے کی کمپنیوں کا قیام یقینی بنایا جائے تو لوگ شاپنگ بیگز کے بجائے نقصان سے پاک پائیدار کپڑے کے تھیلوں کا استعمال کریں گے۔
اسلم بٹ ایک چھوٹے جنرل سٹور کے مالک ہیں جو آج بھی بیشتر دکانداروں کی طرح شاپنگ بیگز استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کپڑے کے تھیلوں کی قیمتیں زیادہ ہیں اور ایسا ممکن نہیں کہ لوگ 20،30 یا 100 اور 150 روپے کی چیز خریدنے کیلئے 15 روپے کے تھیلے بھی خریدیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم بھی کپڑے کے تھیلے استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی قیمتیں ہماری پہنچ سے باہر ہیں۔
اگر ان کی قیمتیں مناسب کر دی جائیں توچھوٹے دکاندار بھی ان کا استعمال کر کے معاشرے کو شاپنگ بیگز سے چھٹکارا دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
دنیا بھر میں ہر سال پچپن سے ایک سو بارہ ارب جبکہ پاکستان میں پانچ کھرب شاپنگ بیگز استعمال ہوتے ہیں۔
صحافی راشد سعید کے مطابق کوئٹہ کی تیس لاکھ کی آبادی میں سے بھی بیشتر اشیائے خوردونوش سمیت روزمرہ کی چیزیں لانے اور لے جانے کیلئے شاپنگ بیگز کا استعمال کرتی ہے۔
پاکستان ماحولیاتی تحفظ کے ایک ادارے نے 2010 میں ایک سروے کیاجس کے مطابق پولی تھین کے تھیلے 1982 میں متعارف کرائے گئے جو کم وزن و قیمت اور مختلف رنگوں میں دستیابی کی وجہ سے بہت مقبول ہوئے۔
پاکستان میں 1990-91 میں 12 ارب پلاسٹک کے تھیلے استعمال کیے گئے جبکہ اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 2019 میں 55 ارب تک جا پہنچی۔
حکومت پولی تھین اور پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی کو عملی جامہ پہنائے اورکپڑوں کے تھیلوں کو فروغ دے
پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال میں بے تحاشا اضافے اور اس کے نقصانات کے پیش نظر حکومت نے 5 جون 2019 کو اسلام آباد میں سودا سلف لانے کیلئے شاپنگ بیگزکے استعمال پرپابندی عائد کر دی اور اس کی جگہ کپڑے کے تھیلے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد دیگر صوبوں نے بھی وفاق کی پیروی کی تاہم حکومتی فیصلے کے اطلاق اور اس پرعمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے اورلوگوں میں دوبارہ شاپنگ بیگز کااستعمال بڑھ گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پلاسٹک کے تھیلوں کا کاروبار ملکی معیشت میں اربوں روپے کی مانگ رکھتا ہے اور تقریباً 8000 کے قریب کارخانوں میں اس صنعت سے چھ،سات لاکھ کے لگ بھگ افرد منسلک ہیں۔
شاپنگ بیگز بنانے والی کمپنیوں پر مکمل پابندی اور شاپنگ بیگز کے فروخت کے قانون پر اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے کپڑے کے تھیلے کی صنعت جڑ نہ پکڑ سکی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پولی تھین اور پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی کو عملی جامہ پہنائے اورکپڑوں کے تھیلوں کو فروغ دے۔
اس ضمن میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ سندھی اجرک کے بنے تھیلوں کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب کی ثقافتی قدروں کو اس غرض سے استعمال میں لایاجائے اس سے دو فائدے حاصل ہوں گے ایک تو لوگ اپنی اپنی ثقافتوں کے ساتھ جڑے رہیں گے دوسرا فائدہ یہ حاصل ہو گا کہ شاپنگ بیگز کے استعمال میں کمی آنے سے انسانی صحت اور ماحول پر منفی اثرات کے بجائے مثبت اثرات مرتب ہونا شروع ہو جائیں گے جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔