اسلامیہ کالج پشاور میں طالب علم کی خودکشی

ضیاء الدین کی خودکشی، کیا کالج انتظامیہ یا نظام نے غفلت برتی؟

0

عمران ٹکر

پشاور: اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے ہارڈنگ ہاسٹل کے کمرہ نمبر گیارہ میں شعبہ شریعہ لاء کے ساتویں سمسٹر کے طالب علم ضیاء الدین کی مبینہ خودکشی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ ضیاء الدین کا تعلق دیر سے تھا اور وہ ایک متحرک، سوشل طالب علم کے طور پر معروف تھے۔

ضیاء الدین کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ پشتو شاعری میں دلچسپی رکھتے تھے اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ واقعے سے قبل رات کے کھانے کے دوران وہ معمول کے مطابق خوش مزاج دکھائی دے رہے تھے اور اپنے دوستوں سے اگلے دن کے لیے مطالعہ کرنے کا وعدہ کر کے اپنے کمرے میں واپس چلے گئے۔ اس رات ان کا روم میٹ ہاسٹل میں موجود نہیں تھا کیونکہ وہ چھٹی پر گیا ہوا تھا۔

دوستوں نے رات کو ضیاء الدین کو اپنے ساتھ رہنے کی پیشکش کی تھی، لیکن اس نے صبح کے مطالعے کا بہانہ بنا کر انکار کر دیا۔ صبح تقریباً گیارہ بجے جب دوستوں نے ضیاء الدین کو کالز اور میسیجز کیے تو کوئی جواب نہ آیا۔ متعدد بار دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود جب کوئی جواب نہ آیا تو ہاسٹل کے چوکیدار نے کھڑکی توڑ کر کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ وہاں ضیاء الدین کی لاش زمین پر پڑی ہوئی ملی، اور اس کے آزار بند سے گلے میں پھندا لگا ہوا تھا، جس کی وجہ سے وہ پھندا ٹوٹنے کے بعد نیچے گر گئے تھے۔

ہاسٹل پرووسٹ، یونیورسٹی وائس چانسلر، متعلقہ شعبے کے چیئرمین، ہاسٹل وارڈن، اور پولیس فوراً موقع پر پہنچے۔ کمرے سے ایک خط برآمد ہوا جس میں ضیاء الدین نے اپنی زندگی ختم کرنے کی وجہ “بلاوجہ” بیان کی تھی۔ دوستوں کے مطابق، ضیاء الدین گزشتہ ہفتے سے معمول سے ہٹ کر خاموش اور الگ تھلگ رہ رہا تھا اور وہ اپنی تعلیمی مصروفیات کے حوالے سے پریشان دکھائی دیتا تھا۔

پولیس نے اس واقعہ کی تحقیقات شروع کر دی ہیں، اور ابتدائی شواہد سے یہ ایک خودکشی کا معاملہ معلوم ہوتا ہے۔ تاہم، ضیاء الدین کی مبینہ خودکشی کے پیچھے کی اصل وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔ اس افسوسناک واقعے نے طلبہ کی ذہنی صحت اور تعلیمی دباؤ کے مسائل پر مزید سوالات اٹھا دیے ہیں۔

یہ واقعہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی ذہنی صحت کے حوالے سے خصوصی اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے تاکہ ایسے سانحات سے بچا جا سکے اور طلبہ کو بروقت معاونت فراہم کی جا سکے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.