اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ملک برصغیر کے ایسے خطے میں واقع ہے جو تاریخی اعتبار سے پوری دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتا ہے،اگر یہ کہا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا کہ یہاں کا ثقافتی ورثہ سیاحوں کی توجہ کا محور بن سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے سے ہم ثقافتی شعبے کو وہ اہمیت نہیں دے پارہے جو دینی چاہیے تھی ورنہ ہمارے معاشی حالات اتنے بدتر نہ ہوتے جتنے کہ اب ہوچکے ہیں لیکن اب بھی ہم ثقافت یا اپنے ورثے پر متوجہ ہوکر سیاحوں کی بھرپور توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جس سے ہمارے ملک کے زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے،ہمارے کئی علاقے ایسے ہیں جو سیاحت کے فروغ کیلئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں،زیرنظر تحریرمیں ایسے ہی علاقے کا ذکر ہے جو یقیناًسیاحت اور ثقافت میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔
’بن فقیراں اسٹوپہ‘ سیاحوں کی توجہ کا محور بن سکتا ہے
پاکستان کی قدیم گندھارا تہذیب کا نشان بن فقیراں اسٹوپہ مارگلا کی جنوبی پہاڑیوں، جو دو وادیوں ٹیکسلا اور سواں کواور اس وقت ٹیکسلا کواسلام آباد سے بھی الگ کررہی ہیں، بن فقیراں اسٹوپہ دراصل اسلام آباد کے مارگلہ کے پہاڑوں کے درمیان850 میٹرکی اونچائی پرایک پرکشش اور تاریخی گاؤں شاہ اللہ دتہ میں واقع ہے۔
بن فقیراں اسٹوپہ کے عمارتی آثار کے علاوہ شاہ اللہ دتہ گاؤں میں قدیم دور کے دو اورآثار بھی موجود ہیں جن میں لوسر باؤلی (کنواں) اور بدھ مت کی غاریں سرفہرست ہیں۔ لوسر باؤلی کی تعمیراتی خصوصیات سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ یہ کنواں بھی شیر شاہ سوری کے حکم پر شاہراہِ اعظم (جی۔ٹی۔ روڈ) کے ساتھ ساتھ بنائی گئی باؤلیوں میں سے ہے، جب کہ بدھ مت کی غاروں کا تعلق گندھارا تہذیب سے ہے۔
بن فقیراں جگہ کا نام وہاں موجود ایک تالاب کے کنارے بنی مسجد سے منسوب ہے،جو اسٹوپہ کے مغرب میں 200 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ پوٹھوہاری اور ہندکو زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے “فقیروں کا تالاب” یا “فقیروں والا تالاب”۔ پوٹھوہاری میں “بن” تالاب کو کہتے ہیں جبکہ “فقیراں ” کا مطلب ہے “فقیروں کا” یا “فقیروں والا”۔
بن فقیراں کے مقام پر اسٹوپہ کے علاوہ مغلوں کے دور کی ایک مسجد اور تالاب بھی ہے، ان تینوں تاریخی مقامات سمیت بدھ مت کی غاروں کو سب سے پہلے پاکستان کے مشہور ماہر قدیمہ اور تاریخ دان احمد حسن دانی اور ان کے شاگرد آزاد کاقیپوٹو نے اس صدی کے شروعاتی برسوں میں دریافت کیا تھا۔ یہاں پر بعد میں وفاقی محکمہ آثار قدیمہ اور عجائب گھر کے ایک افسر ڈاکٹر عبدالغفور لون کی سربراہی میں 2015 اور 2016میں کھدائی کی گئی، جس کے نتیجے میں دوسری عیسوی صدی کے ایک اسٹوپہ اور ستارویں صدی کی ایک مسجد کی عمارت اور بہت سارے قدیم نوادرات، جن میں مٹی کے برتن، پتھر کی چیزیں، تیر کی نوکیں، سکے، پتھر اور شیشے کے منکے وغیرہ، کوسامنے لایاگیا۔
اس قدیم علاقے میں لوسر باؤلی اور بدھ مت کی غاریں بھی موجود ہیں
بن فقیراں کی کھدائی اور تحفظ کے لئے نیشنل فنڈ فار کلچرل ھیریٹیج میں سے بیس لاکھ روپے مختص کئے گئے تھے۔ ڈاکٹر عبدالغفور نے کھدائی کی رپورٹ میں اس منصوبے کے درج ذیل مقاصد بیان کئے ہیں۔
٭ بن فقیراں کے بدھ مت کے مقام کی جانچ پڑتال، کھدائی اور تحفظ۔
٭ علاقے کے ثقافتی نقشے کو دوبارہ جوڑنا۔
٭ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کی قدامت کو بڑھانا۔
٭ اسلام آباد عجائب گھر میں نمائش کی غرض سے دریافت کئے گئے ثقافتی مواد کا اضافہ۔
٭ آثارقدیمہ اور اینتھروپالوجی کی تحقیق کرنے والے طلباء کو تربیتی مواقع دینا۔
٭ ثقافتی ورثے اور سیاحت کے موضوع پر تحقیق کو فروغ دینا۔
٭ علاقے کے ثقافتی ورثے کی تحقیق کرتے ہوئے ملک کی مثبت ساکھ کو فروغ دینااورکھدائی کی رپورٹ کو شائع کرنا۔
ماہر آثارقدیمہ ڈاکٹر عبدالغفور کے مطابق یہ اسٹوپہ اسلام آباد کی حدود میں ابھی تک دریافت کئے گئے اسٹوپاؤں میں سب سے بڑا ہے
ڈاکٹر عبدالغفور نے بن فقیراں کے آثار کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا ہے،ایک اوپر والا حصہ (80×40 میٹر) جس میں اسٹوپہ ہے اور دوسرا نیچے والا حصہ (40×40 میٹر) جہاں پر ایک پرانی مسجد اور ایک پانی کے بڑے تالاب کے آثار ہیں،اوپر والے حصے کے آثار دوسری عیسوی صدی جبکہ نیچلے حصے میں دریافت کی گئیں جگہیں مغلوں کے دور کی ہیں،اس جگہ کی کھدائی سے پہلے کچھ ماہرین آثار قدیمہ کا خیال تھا کہ یہ مسجد محمود غزنوی کے دور کی ہے، اس جگہ کی کھدائی اور تحفظ کا کام اگست 2015 میں شروع ہوا جس کو فروری 2016 میں مکمل کیا گیا۔کھدائی کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے اسٹوپہ کا تعلق بدھ مت سے ہے۔ فنِ تعمیر کے لحاظ سے یہ اسٹوپہ بھی گندھارا اور خاص طور پر ٹیکسلا کے دوسرے اسٹوپاؤں کی طرح تعمیر کیا گیا ہے۔ مقامی پتھروں سے بنا ہوا مستطیل سیڑھی والا یہ ایک چوکور اسٹوپہ ہے جس کی پیمائش 10.15×10.15 میٹر ہے اور اس کی سیڑھی 16.20 میٹر لمبی اور 2.60 میٹر چوڑی ہے، اس کی بنیاد میں چونے کے بڑے بڑے پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے اور اوپر والے حصے میں کنجور کے تراشے ہوئے پتھر استعمال کئے گئے ہیں۔ عمارت کی چنائی سیمی ایشلر اور ڈائپرچنائی کے طریقے سے کی گئی ہے جو گندھارا میں دوسری عمارتوں کی ھمعسر ہے۔ اسکی چنائی کے طریقے کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر عبدالغفور کا کہنا ہے کہ اسٹوپہ کی عمارت دوسری عیسوی صدی سے پانچویں عیسوی صدی کی ہے۔ یہ اسٹوپہ اسلام آباد کی حدود میں ابھی تک دریافت کئے گئے اسٹوپاؤں میں سب سے بڑا ہے۔
بن فقیراں کے مقام پر اسٹوپہ کے علاوہ مغلوں کے دور کی ایک مسجد اور تالاب بھی ہے
بن فقیراں اسٹوپہ کی سب سے خاص بات اس کامقام ہے جو اس کو منفرد بناتا ہے۔یہ ایک پرسکون اور خوبصورت جگہ پہ تعمیر کیا گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ بدھ مت کے راہب اپنی عبادت گاہوں کو کسی الگ اور پرسکون مقام پر بناتے تھے تاکہ ان کی عبادت، گیان اور تپسیا میں کوئی خلل نہ آسکے، اور یہ اسٹوپہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، عام لوگوں سے دور، عبادت کے لئے بہترین اور خوبصورت ہے، اسکی حفاظت کے لہاظ سے بھی یہاں سے زمین کے ایک بہت بڑے ٹکڑے پر نظر رکھی جا سکتی ہے، اوریہ قدیم ٹیکسلا شہر اور مارگلا کی دوسری طرف کی زرخیز زمین جہاں آج اسلام آبادشہر ہے کے درمیان ایک ڈیرہ تھا جہاں سے راہب کاشتکاری کے معاملات کو دیکھتے تھے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جدید شہر اسلام آباد میں واقع گندھارا کی قدیم بدھ مت تہذیب کا مذہبی مقام بن فقیراں اسٹوپہ آج سے دوہزارسال پہلے اس وقت کے ترقی یافتہ شہر ٹیکسلا کا حصہ تھا،چونکہ یہ مقام قریب ہی میں دریافت کیا گیا ہے اس لئے یہ اسٹوپہ ٹیکسلا کے دیگر بدھ مت کے اسٹوپاؤں کی فہرست میں جگہ بنانے میں ناکام رہا ہے،اس کی کئی اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں لیکن ایک وجہ بن فقیراں اسٹوپہ کی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مشہوری نہ کرنا بھی ہے،اس حوالے سے پاکستانی میڈیااور وفاقی محکمہ آثارقدیمہ اور عجائب گھر بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اس تاریخی مقام کے تحفظ اور عوامی آگاہی کے لئے اقدام اٹھائے، اور یہ بھی کہ بن فقیراں اسٹوپہ تک روڈ بنایا جائے تاکہ سیاح وہاں آسانی سے جا سکیں، اس سے سیاحت کو فروغ ملے گا۔ بلاشبہ ثقافتی سیاحت ملک کی معشیت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔