رنگ برنگی ’رلی‘ بنانے والوں کی اپنی زندگیاں بے رنگ کیوں!

حکومت نے توجہ نہ دی توسندھ کی پانچ ہزار سال پرانی ثقافت قصہ پارینہ بن جائے گا

0

شازیہ محبوب

اسلام اباد: جب ہم ثقافت کی بات کرتے ہیں تو سندھی ثقافت سے جڑی رلی کی بات نہ کریں تو ناانصافی ہوگی سب سے پہلے تو ہم رلی بنانے کے طریقہ کار کو نوک قلم لاتے ہیں،دراصل رلّیّ کی تین تہیں  ہوتی ہیں۔

پہلی تہہ سادہ کپڑے پر مشتمل ہوتی ہے، جو عموماً ایک ہی رنگ کا ہوتا ہے، جو سندھی میں ’تر‘ کہلاتا ہے، دوسری تہہ رلّی کا اہم حصہ ہوتی ہے، جس پر اصل ڈیزائن بنا ہوتا ہے، اسے ’’پڑ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی تہہ کی تیاری سب سے زیادہ محنت طلب کام ہوتا ہے۔

تیسری تہہ ان دونوں کے درمیان ہوا کرتی ہے، جو’’لیہہ‘‘کہلاتی ہے، جسے کپڑے کے ٹکڑوں کو سیدھا کر کے ان سے بھرکر رلّیّ کی خوبصورتی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس تہہ میں استعمال ہونے والے کپڑے کے ٹکڑوں کو ”پور“ کہا جاتا ہے۔

رلّیّ ّسازی کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ گھر میں بے کار پڑے ہوئے کپڑوں کو کارآمد بنانے کا ذریعہ بھی ہے۔جس گھر میں رلّیاں بنتی ہیں، اس گھر میں کسی بھی مسترد کیے ہوئے لباس یا کپڑے کے ٹکڑوں کو فضول سمجھ کر ضائع نہیں کیا جاتا، بلکہ اسے رلّی کے ”پور“میں استعمال کرنے کے لئے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ رلّی کپڑے کی”کتروں“کو جوڑنے کا ہنر بھی ہے۔
”رلّی“ کو انگریزی زبان میں ”کوئلٹ“ جبکہ سندھی میں ”رلی“ یا ”رلّی“  جبکہ سرائیکی میں ” گندھی” اور پنجابی میں “جلی” کہا جاتا ہے۔، رلی”  وادی مہران کی  ہزاروں سال قدیم  ” تاریخ کا  حسین تسلسل بھی ہے۔
اب ہم بات کرتے ہیں کرونا وائرس کے تباہ کن معاشی زوال کے باوجود تھر پارکر سے تعلق رکھنے والے کیلاس اور اس کی بیوی سمیتا سمیت کئی دوسرے ہنر مندوں کی جو “رلی” بنا کر اپنا ہینڈی کرافٹس کا کام جاری رکھے ہوئے  ہیں۔
اقلیدسی“ شکل میں نفاست سے کاٹ کے آپس میں جڑی ہوئی انسانی قد سے لمبی رلی بنا نے میں کیلاس اور اس کے گھر والے  کئی نسلوں سے کام کر رہے ہیں لیکن کرونا کے دنوں میں نہ صرف کیلاس کا کام رکا بلکہ کئی گھروں کے چولھے بھی بند ہو گئے۔

سندھ میں میلے تقریباً 90 فیصد تک کم ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ہم راجن پور آگئے اور مزدوری کرنے لگے،زینت بی بی

کیلاس  اور اس کی بیوی سمیتا مختلف علاقوں میں ہنرمندخواتین سے بھی جداگانہ کام کرواکردیگر علاقوں میں جا کر بیچتے ہیں اس  طرح انھوں نے پانچ ہزار سال کی پرانی تاریخ کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
سندھ میں مختلف برادریاں رلّی سازی کے فن میں مہارت کی وجہ سے اپنی منفردشناخت رکھتی ہیں۔

ٹنڈواللّہ یار اور ٹنڈو محمد خان کے چوہان، عمرکوٹ کے پلی اور جوگی، بدین اور ٹھٹہ کے سامی (خانہ بدوش) اور کچھی سومرا برادری کے مرد و خواتین اس کام میں ماہر ہیں،تھر پارکرکی رہائشی خاتون زینت کہتی ہیں کہ میں اپنے پانچ افراد کے خاندان کے ساتھ تیس سال سے دستکاری کے کاروبار سے منسلک ہوں،اضافی منافع کمانے کیلئے ہم نمائشوں اور مقامی میلوں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن 2019 سے سندھ میں میلے تقریباً 90 فیصد تک کم ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ہم راجن پور آگئے اور مزدوری کرنے لگے۔

رلی بنانے کا ہنر ہمارے خون میں ہے لیکن معاشی حالات ایسے ہی رہے تو ہمیں اسے چھوڑنا پڑے گا، ایک اور دستکارمہون   نے بتایا کہ ہاتھ سے بنے ثقافتی ملبوسات اور   ’رلی‘ کا کاروبارتجارتی لہاظ سے کرونا کی وجہ سے شدید متاثر ہوا ہے۔

جنوبی پنجاب ملتان  سے تعلق رکھنے والی منصب بی بی نے کہا کہ آ ن لائن بزنس بہت مشکل ہے کیونکہ آن لائن کاروبارکروانے والی کمپنیاں اپنے ٹیکس زیادہ کاٹتی ہیں جبکہ اشیا کم قیمت میں خریدتی ہیں۔

حکومت نے توجہ نہ دی توسندھ کی پانچ ہزار سال پرانی ثقافت قصہ پارینہ بن جائے گا

حکومت پاکستان نے اگر چہ احساس پروگرام کے تحت سمال بزنس لون کی سکیم شروع کی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تک ہر شخص کی رسائی ممکن ہے۔ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب جہاں لوگوں کے پاس صاف پانی،بجلی اور صحت کی سہولیات نہیں وہاں انٹرنیٹ کہاں، خواتین کے پاس تو موبائل تک نہیں۔

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی منصب بی بی کے مطابق،”کرونا وبا سے پہلے ایک” رلی” گھر بیٹھے بنانے پر آٹھ سے نو سو روپے جبکہ دوسری  خواتین اور مردوں   سے بنوانے پر چودہ یا پندرہ سو لاگت آتی تھی اور مہینے کی بائیس یا چوبیس “رلیاں “فروخت ہوتی تھیں لیکن اب زائد خرچے کیساتھ بچے بھی ماؤں کے ساتھ مل کر” رلی “بناتے ہیں اسکے باوجودمہینے میں دس “رلیاں “بھی نہیں بکتیں جس سے مزدوری بھی پوری نہیں ہوتی۔”

رلی بناتے ہوئے بینائی تک متاثر کر بیٹھنے والے ہنر مندوں کورلی کی مجموعی قیمت کا صرف 20 تا 25 فیصدمعاوضہ دیاجاتا ہے باقی مڈل مین اور دکانداروں میں تقسیم ہوجاتا ہے

دستکاروں کے مطابق اعلیٰ قسم کی رلیوں کی تیاری میں ایک سے دو برس لگتے ہیں جب کہ ان پر لاکھوں روپے لاگت آتی ہے،اس وجہ سے ان کی قیمت بھی ایک تا 5 لاکھ روپے تک ہوتی ہے ان کی نسبت سادہ رلی ایک سے 5 ہزارروپے جبکہ زیادہ اچھے معیار کی رلی 5 تا 10 ہزار روپے میں دستیاب ہوتی ہے، لیکن سندھ کے دست کاروں خصوصاًخواتین ہنرمندوں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ انہیں کبھی بھی اپنی محنت کا معقول معاوضہ نہیں ملتا۔

کشیدہ کاری سے رلیوں کی ڈیزائننگ کرتے ہوئے ان کی بینائی متاثر ہوجاتی ہے، انہیں رلّی کی مجموعی قیمت کا صرف 20 تا 25 فیصدمعاوضہ دیاجاتا ہے باقی رقم رلی کو مارکیٹ تک پہنچانے والے مڈل مین، بروکر اور دکانداروں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔

یوں اس فن کی سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے رلی میں کپڑوں کے ٹکڑوں کی مدد سے رنگ بھرنے والوں کی اپنی زندگیاں خوشیوں کے رنگوں سے خالی گزرتی ہیں۔ اگر حکومت اور محکمہ ثقافت کی طرف سے ان دست کار مرد و خواتین کے ساتھ یہی وتیرہ اختیار کیا جاتا رہاتورلی سازی کا ہنربھی قصہ پارینہ بن جائے گا۔
بوکس
مختلف علاقوں میں بننے والی رلیوں میں اقلیدسی ڈیزائن
یہ ایک اور دلچسپ امر ہے کہ مختلف علاقوں میں بننے والی رلیوں میں اقلیدسی ڈیزائنوں کے اندر، پرندوں، جانوروں، پھلوں، درختوں وغیرہ کی اشکال کو نمایاں کیا جاتا ہے جو نہ صرف اس علاقے کے سماجی پس منظر کو واضح کرتی ہیں بلکہ ان ہنرمندوں کے ذہنی رجحان کی بھی نشان دہی کرتی ہیں۔

مثلاً تھر میں بننے والی رلیوں میں مور، ہاتھی، ہرن اور چاند کی شکل کے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں، خیرپور اور اس کے گردونواح میں تیار ہونے والی رلیوں میں کھجور کے درخت، سکول کی تختی، اونٹ، جھولے اور کہیں کہیں مور کی شکل کو بھی رلّی کے ڈیزائنوں میں شامل کیا جاتا ہے۔

سانگھڑ ضلع میں ’’اچھڑو تھر‘‘میں بننے والی رلیوں میں چاند، ستارے، پھول، اونٹ وغیرہ کی ڈرائنگز بنائی جاتی ہیں۔یہ بات بھی حیران کن ہے کہ دست کار خواتین کو ان تمام اشیاء کی شکلیں اپنے ذہن میں محفوظ رکھنے اور کام کے دوران اسکیچزسامنے رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔یہ کام انتہائی وقت اور محنت طلب ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.