اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران نیازی کو فوری طور پر اڈیالہ جیل سے کسی دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے کوئی فیصلہ 190 ملین پاؤنڈ کی منتقلی کے مقدمے کی سماعت مکمل ہونے کے بعد کیا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ عمران نے پیر کو اعتراف کیا کہ اپنے کارکنوں کو جی ایچ کیو جا کر احتجاج کرنے کی ہدایات انہوں نے خود دی تھیں، جس سے مقدمہ فوجی عدالت میں لے جانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے پیر کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں 9 مئی کے مقدمات میں ماخوذ ہونے کے باعث فوجی حکام کے حوالے کیا جائے گا، جو انہیں فوج کی جیل میں رکھیں گے۔
معلوم ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن میں آج سے تحریک انصاف کے بارے میں اہم معاملات کی سماعت شروع ہورہی ہے جن میں کمیشن کو ابھی تک اطمینان بخش جوابات نہیں ملے ہیں، جس سے پارٹی کے وجود کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
’’جنگ‘‘ کو قابل اعتماد ذرائع نے بتایا کہ 9 مئی کے مرکزی مقدمے کی سماعت آئندہ ماہ شروع ہوگی، جس کے لیے ملزمان کو لاہور یا اس کے نواح کی کسی جیل میں لے جانا ضروری ہوگا۔
اس مقدمے کو لاہور میں قائم عدالت سن رہی ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کے علاوہ ساہیوال کی ڈسٹرکٹ جیل میں دہشت گردی اور خطرناک جرائم میں ملوث ملزمان کے لیے الگ بیرک موجود ہیں اور خصوصی عدالت ان جیلوں میں جا کر مقدمے کی سماعت کر سکتی ہے اگر عمران کے مرکزی مقدمے کو فوجی عدالت میں سماعت کے لیے مقرر نہ کیا گیا۔
اگر مقدمہ، جس میں عمران پر ایک درجن سے زیادہ سنگین دفعات شامل ہیں اور جن میں سزائے موت اور عمر قید کی گنجائش ہے، فوجی عدالت میں جائے تو عدالت اپنے کسی حراستی مرکز میں عمران سمیت تمام ملزمان کو رکھنے کا حکم دے سکتی ہے۔
ایسے مرکز کی نشاندہی اور مقام سے آگاہ کرنا متعلقہ حکام پر لازم نہیں ہوگا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ عمران نیازی نے اعتراف کیا کہ اپنے کارکنوں کو جی ایچ کیو جا کر احتجاج کرنے کی ہدایات انہوں نے خود دی تھیں، جس سے مقدمہ فوجی عدالت میں لے جانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے اصرار کیا کہ امریکی کیپٹل ہل اور برطانیہ میں احتجاج کے دوران کلوز سرکٹ کیمروں سے مجرموں کا تعین کیا جائے، دراصل اپنے کارکنوں کو ملوث کر کے خود بچنے کی کوشش ہے، حالانکہ تفتیش کاروں نے 9 مئی کے منصوبہ بندی اور اس کے مقاصد کے حوالے سے شہادتوں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔
مسلح افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پیر کو اپنی میڈیا بریفنگ میں جن نکات کی نشاندہی کی ہے، انہیں آگے بڑھانے کے لیے عملی اقدامات کا آغاز بڑے پیمانے پر ہوجائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ اظہار رائے کی آزادی کے نام نہاد تصور کو لے کر سوشل میڈیا کے لیے تحفظ تلاش کرنے کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
سوشل میڈیا جسے کسی روک ٹوک کے بغیر زہر پھیلانے کی اجازت دی جاتی ہے، اب اسے روکا جائے گا۔
زیر حراست مجرموں سے ملاقات کے لیے جیل قوانین کے تحت ضابطے مقرر ہیں، ان سے صرف نظر کرتے ہوئے فراخدلانہ ملاقاتوں کے لیے حکم صادر کرنا جیلوں میں بند ہزاروں دوسرے قیدیوں کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہے۔
اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کثیر تعداد میں ملاقاتوں کو یقینی بنانے کے لیے نگران جج کا تقرر نہ کردیا جائے۔