اسلام آباد:عراق کی پارلیمنٹ میں لڑکیوں کی شادی کی عمر 9 سال مقرر کرنے کا بل متعارف کرانے پر شدید ردعمل اور تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
ابھی عراق میں قانونی طور پر لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سال ہے، لیکن اس بل کے تحت عمر کم کر کے 9 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ بل شہریوں کو خاندانی معاملات کے فیصلے کے لیے مذہبی حکام یا سول عدلیہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی اجازت دے گا۔
تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ بل وراثت، طلاق، اور بچوں کی تحویل کے معاملات میں حقوق میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو 9 سال کی لڑکیوں اور 15 سال سے کم عمر لڑکوں کو شادی کرنے کی اجازت ملے گی۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں، خواتین کے گروپ، اور سول سوسائٹی کے اراکین نے اس بل کی سخت مخالفت کی ہے، اور اس کے نوجوان لڑکیوں کی تعلیم، صحت، اور فلاح و بہبود پر ممکنہ منفی اثرات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیوں سے طلاق کی شرح میں اضافہ، کم عمری میں حمل، اور گھریلو تشدد کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق، عراق میں 28 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی محقق سارہ سنبر کا کہنا ہےکہ اس قانون کے پاس ہونے سے ظاہر ہوگا کہ ملک ترقی کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔