نو شہرہ:خیبر پختونخوا کے دو مختلف تعلیمی اداروں میں طلبہ پر ہونے والے وحشیانہ تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں، جس سے والدین اور مقامی عوام میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔
پہلا واقعہ نوشہرہ کے گورنمنٹ ہائی سکول امانگڑھ میں پیش آیا، جہاں سکول سے غیر حاضری پر استاد نے دو طالبعلموں پر شدید جسمانی تشدد کیا۔ 12 سالہ (ز) اور 13 سالہ (ح) کو استاد (ب) نے تشدد کا نشانہ بنایا، جس سے دونوں بچوں کے بازو ٹوٹ گئے۔ والدین کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں نے چھٹی لی تھی جو منظور بھی ہوچکی تھی، لیکن اس کے باوجود استاد نے ان پر بے رحمی سے تشدد کیا اور بعد ازاں انہیں کلاس روم میں بند کر دیا۔
متاثرہ بچوں کو علاج کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر (ڈی ایچ کیو) ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کے بازوؤں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ والدین نے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ استاد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، بصورت دیگر وہ احتجاج پر مجبور ہوں گے۔
دوسرا افسوسناک واقعہ چارسدہ کے غریب آباد علاقے میں واقع جامعہ عائشہ للبنات میں پیش آیا، جہاں ایک طالبہ کو مبینہ طور پر مدرسے کے اساتذہ نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ طالبہ کے والد کے مطابق اس کی بیٹی پر بلاوجہ شدید جسمانی تشدد کیا گیا، جس سے اس کا ناک ٹوٹ گیا اور حالت نازک ہوگئی۔
والد نے سٹی پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کروائی، تاہم ان کا کہنا ہے کہ ملزمان کی ابھی تک گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ طالبہ کی ناک کی سرجری ڈی ایچ کیو ہسپتال چارسدہ میں طے ہے۔
ان واقعات نے خیبر پختونخوا میں تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے تشدد کے رجحان کو مزید اجاگر کیا ہے۔
خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 کے تحت بچوں پر تشدد کے خلاف سخت سزائیں متعین کی گئی ہیں، جس میں 6 ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ شامل ہے۔
تاہم، ان واقعات میں انصاف کی فراہمی کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، اور متاثرہ والدین نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
مزید کے لیے لنک پر کلک کریں: https://urdu.thepenpk.com/?p=3797