اسلام آباد:طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دو ہزار چوبیس بیماریوں کے لحاظ سے سخت ترین سال رہا جو بخار کی مختلف اقسام کے ساتھ ساتھ آلودہ پانی اور جان لیوا وائرس سے پیدا ہونے والے وبائی امراض کی لپیٹ میں رہا۔
ماحولیاتی تبدیلی اور آلودگی کا اثر
ماحولیاتی تبدیلی اور آلودگی نے جہاں سال بھر لوگوں کو سنگین بیماریوں میں مبتلا رکھا، وہیں اس سال کراچی میں ہیٹ ویو کے نتیجے میں چون افراد جاں بحق ہوئے۔
بیماریوں کا پھیلاؤ اور صحتِ عامہ پر دباؤ
یہ سال بیماریوں کے پھیلاؤ، صحتِ عامہ کے نظام پر دباؤ اور عالمی سطح پر عوامی صحت کے مسائل کی وجہ سے خاص طور پر اہم رہا۔ سندھ میں بھی بیماریوں کے پھیلاؤ نے بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کیا۔
ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ اور دیگر وبائی امراض
محکمۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق صرف دو ہزار چوبیس میں چھ ہزار سے زائد ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کے کیسز رپورٹ ہوئے۔
ڈینگی اور ملیریا کی وبا
رواں سال سندھ بھر میں ڈینگی کے 2,605 کیسز سامنے آئے، جن میں سے دو ہزار ایک سو تیس کیسز کراچی سے تھے۔ جبکہ صوبے بھر میں رواں سال ملیریا کے تین لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔
نیگلیریا اور کانگو وائرس
دوسری جانب سندھ میں صاف پانی میں پائے جانے والے دماغ خور جرثومے نیگلیریا نے پانچ افراد کی زندگی کو نگل لیا، جبکہ کانگو وائرس کے بھی پانچ کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے ایک فرد جان سے گیا۔
آلودہ پانی کے اثرات
آلودہ پانی کے سبب ریکارڈ بریکنگ ڈائریا کے پانچ لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ رواں سال ایچ آئی وی ایڈز سے سندھ بھر میں تین ہزار ایک سو چھہتر افراد متاثر ہوئے، جن میں سے چار سو تراسی افراد جان سے بھی گئے۔
صحتِ عامہ کے مسائل اور حکومتی حکمتِ عملی
قدرتی آفات اور وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے جہاں صوبے میں محکمۂ صحت کی حکمتِ عملی مؤثر ہوتی نظر نہیں آئی، وہیں دوسری جانب وزیرِ صحت سندھ ڈاکٹر عزرا فضل پیچوہو کے مطابق مسائل اور چیلنجز کے باوجود دو ہزار چوبیس محکمۂ صحت کی کارکردگی تسلی بخش رہی۔
مزید پرئیے:https://urdu.thepenpk.com/?p=5685