ویسٹ ڈسپوزل سائٹس: بچوں کی صحت کے خاموش قاتل

0

فیصل سلیم

کبیروالہ: پانچ سالہ عبداللہ کبیروالہ شہر کے مضافات میں موجود اینٹوں والے بھٹے پر اپنے والدین کے ساتھ رہتا ہے۔ عبداللہ کے والد محمد اکمل بھٹہ مزدور ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ احمد پیدائشی طور پر کمزور و نحیف تھا لیکن وہ اسکی ٹانگوں میں موجود دم خم وقت کے ساتھ جاتا رہا اور وہ چلنے سے یکسر محروم ہوچکا ہے۔

ڈاکٹرز کے تفصیلی چیک کے بعد یہ پتہ چلا ہے کہ اس مسئلے کا سبب وہ علاقہ اور وہاں کا ماحول ہے جہاں وہ رہائش پذیر ہیں۔ احمد جس بھٹے پر رہائش پذیر ہے اس کے قریب ہی کبیروالہ میونسپل کمیٹی کی واٹر ٹریٹمنٹ و ویسٹ ڈسپوزل سائٹ موجود ہے۔

ڈاکٹرز اور مختلف تحقیقاتی مقالوں سے پتہ چلتا ہے کہ جن علاقوں میں پلاسٹک کی مصنوعات تیار کرنے والی انڈسٹری یا ویسٹ ڈسپوزل سائٹس موجود ہوتی ہیں ان کے قرب و جواز میں رہنے والے انسانی آبادی کو پیدائشی طور پر بچوں کے کم وزن، دمے، پھپھڑوں کے و دیگر کینسر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

قطعہ بدھوآنہ میں موجود ویسٹ اینڈ واٹر ڈسپوزل سائٹ یا دیگر ایسی جگہوں کا جائزہ لیا جائے تو جابجا کچرے کے ڈھیر اور آلودہ پانی کے جوہڑ دکھائی دیتے ہیں۔ جس کے قریب کوئی انسان زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتا ہے جبکہ چیل کوے و دیگر پرندے گندگی کے انہی ڈھیروں سے اپنی خوراک کا بندوبست کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ویسٹ ڈسپوزل سائٹ میں سب سے واضح عنصر پلاسٹک کا شاپر ہے، جو کہ پاکستان کی ماحولیاتی آلودگی میں 11 فیصد سے زائد آلودگی کا اضافہ کرتا ہے۔ محکمہ تحفظ ماحولیات کے مطابق 2019 میں ملک بھر میں 55 بلین پلاسٹک شاپر بنایا جاتا تھا جس میں ہر سال 15 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس تناسب سے اب یہ تعداد 126 بلین ہوچکی ہے۔ اس شاپر کے استعمال و افادیت صرف 12 منٹ تصور کی جاتی ہے جبکہ اس کے گلنے سڑنے کی امید لگ بھگ ناممکن جیسی ہے۔

ویسٹ مینجمٹ کو لیکر پنجاب حکومت کافی سنجیدہ دکھائی دیتی ہے، 1995 سے تاحال مختلف ادوار میں حکومتی پابندیاں، ماحول دوست متبادل کے لئے سماجی تنظیموں کی کوششیں اور ادارتی جرمانے شاپر کی پیداوار کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

موجودہ حکومت پنجاب نے ستھرا پنجاب کے نام سے شروع کی جانے والی سکیم میں صفائی ستھرائی کا کام نجی اداروں کو سونپ دیا ہے اور انکے کام کا دائرہ کار شہری علاقوں سے بڑھا دیہات کی گلیوں تک پھیلا دیا گیا ہے۔

ڈسٹرکٹ انچارج ایم ڈبلیو ایم سی محمد عثمان کے مطابق ضلع خانیوال کی میونسپل کمیٹیز کے ساتھ ساتھ 647 چکوک میں ملتان ویسٹ منجمنٹ کمپنی کے ذیلی ادارے تحصیل سطح پر ویسٹ ڈسپوزل کا کام سرانجام دے رہے ہیں جس میں تحصیل کبیروالہ سے 365 ٹن، تحصیل خانیوال سے 355 ٹن، تصیل میانچنوں سے 327 ٹن، تحصیل جہانیاں سے 196 ٹن کچرا اوسطاً روزانہ اٹھایا جا رہا ہے۔

اس کام کے لئے تحصیل کبیروالہ میں 1279، تحصیل خانیوال میں 1096، تصیل میانچنوں میں 973 اور تحصیل جہانیاں میں 646 افراد پر مشتمل صفائی والا عملہ معمور کیا گیا ہے۔ ویسٹ ڈسپوزل سائٹس پر ہر چار فٹ کچرہ بھرنے کے بعد اس پر مٹی کی تہہ بچھائی جاتی ہے تاکہ یہ کچرہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب نا بنے۔

انکا کہنا ہے کہ تاحال صفائی ستھرائی کی شکایات تو موصول ہو رہی ہیں لیکن ادارے کا سسٹم بہترین و کارگر ہے جو عملے کی حاضری و کارکردگی کو یقینی بنا رہا ہے۔ لیکن مکمل صفائی میں ایک سال کا عرصہ درکار ہے۔ اس کے بعد امید ہے کہ کچرے ڈھیروں سے مکمل نجات مل جائیگی اور صفائی ستھرائی روزانہ کے معمول پر آجائے گی اور آلودگی میں کمی آئیگی۔

ویسٹ ڈسپوزل سائٹس: بچوں کی صحت کے خاموش قاتل

اس حوالے سے تجویز کرتا ہے کہ جب ایک لینڈ فل سائٹ ویسٹ سے مکمل ہو جائے تو اس سے جاری ہونے والی گیسز کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے، وہاں پر شجرکاری بھی کی جاسکتی ہے اور اسی جگہ کو ماحول دوست بنایا جاسکتا ہے جس کا پہلا تجربہ لاہور میں کیا جاچکا ہے اور اسی طرز پر پنجاب بھر کی ویسٹ ڈسپوزل سائٹس کو ماحول دوست بنایا جائے گا۔ جبکہ محکمہ تحفظ ماحولیات خانیوال سے پلاسٹک پلوشن کم کرنے کے حوالے سے کی جانے والی کاروائیوں اور جرمانوں کے اعداد و شمار حاصل نہیں ہوسکے۔

یونیسف کے مطابق 2019 میں پاکستان دنیا کے ان 128 ممالک میں شامل ہوگیا تھا جہاں پر پولی تھین کی پیداوار،خرید وفروخت پر پابندی لگاتے ہوئے “آکسو بائیوگریڈایبل” بیگ کے استعمال کی ترغیب دی گئی تھی لیکن اس پالیسی پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔

شاپر فروخت کرنے والے توکل پلاسٹک سنٹر کے مالک محمد عزیز کا کہنا ہے کہ وہ معیاری شاپر ہی فروخت کرتے ہیں کیونکہ مارکیٹ سے شاپر کی ڈیمانڈ مسلسل آتی ہے تو اسکی فروخت یا استعمال یکسر بند ہونا لگ بھگ ناممکن ہے۔ اس حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس کے استعمال کو کم ترجیح دیں۔

“شاپر کا استعمال پیپر بیگ کے تدارک کی شکل میں بڑھا تھا تاکہ درختوں کی کٹائی کم ہوسکے لیکن یہ سستا متبادل ماحول کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔” ڈاکٹر اختر حسین – ڈسٹرکٹ مینیجر، این جی او ورلڈ

پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ انہیں اپنی قومی ترقیاتی حکمت عملیوں میں بھی شامل کیا۔ خاص طور پر ہدف بارہ (پائیدار استعمال و پیداوار) اور ہدف تیرہ (ماحولیاتی تحفظ و موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا) کی پائیدار ترقیاتی اہداف کے فریم ورک 2022 کے تحت نگرانی کی جارہی ہے۔ اسی تسلسل میں، پاکستان نے 2022 میں اقوامِ متحدہ کی ماحولیاتی اسمبلی اس قرارداد کی بھی حمایت کی جس کا مقصد 2024 پلاسٹک آلودگی کے خاتمے کے لیے ایک قانونی عالمی معاہدہ تیار کرنا ہے۔

علاوہ ازیں، پاکستان کی وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے اشتراک سے “پلاسٹک ویسٹ مینجمنٹ ایکشن پلان 25-2020 متعارف کروایا، جس میں پلاسٹک کے استعمال میں کمی، ری سائیکلنگ کو فروغ، “ایکسٹینڈڈ پروڈیوسر رسپانسبلٹی کا نفاذ، اور قانون سازی و آگاہی بڑھانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

تاہم، ان تمام وعدوں، منصوبوں اور پالیسی دستاویزات کے باوجود، عملی سطح پر خاطر خواہ پیش رفت نظر نہیں آتی۔ گلی محلوں میں سستے، ناقص معیار کے پلاسٹک بیگز بدستور استعمال ہو رہے ہیں، جن کی پیداوار و فروخت پر مؤثر پابندی نظر نہیں آتی۔ یہ صورت حال پاکستان کے بین الاقوامی وعدوں اور قومی پالیسیوں کے ساتھ ایک واضح تضاد کو ظاہر کرتی ہے۔

اس کہانی کے مرکزی کردار عبداللہ کے والد اکمل اس کے علاج کو لیکر مایوس ہیں، لیکن وہ متعلقہ اداروں اور پالیسی میکرز سے یہ التجا ضرور کرتے ہیں کہ وہ اپنے مالی حالات کے سبب یہاں سے کہیں اور شفٹ نہیں ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر ادارے اپنے کام کو احسن طریقے سے انجام دیں تو ایسی ڈسپوزل سائٹس کسی کے لئے بھی نقصان دہ ثابت نا ہوں۔ اور اگر ادارے اس چیز کو یقینی بنالیں تو عبداللہ کی طرح مزید کوئی بچہ ایسی معذوری کا شکار نہیں ہوگا۔   

ننھے عبداللہ کا معاملہ صرف ایک ذاتی سانحہ نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 38 کے مطابق، ریاست پر لازم ہے کہ وہ عوام کی سماجی و اقتصادی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے۔ بین الاقوامی معاہدے، جیسے کہ اقوام متحدہ کا کنونشن برائے حقوقِ طفل، بچوں کے لیے صحت مند ماحول اور معیاری طرزِ زندگی کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ مگر، خطرناک فضلہ جات کے قریب رہنے والے بچے ان بنیادی حقوق سے مسلسل محروم ہیں، جس سے یہ امر لازم ہو جاتا ہے کہ ریاستی ادارے ماحولیاتی پالیسیوں کو آئینی تقاضوں اور بین الاقوامی وعدوں سے ہم آہنگ کریں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.