اسلام آباد:انتظار، غیر یقینی صورتحال اور قیاس آرائیوں کے طویل سلسلے کے بعد، پاکستان نے بالآخر چیمپئنز ٹرافی دو ہزار پچیس کے لیے اپنی پندرہ رکنی اسکواڈ کا اعلان کر دیا ہے۔
ایک ایسے ایونٹ میں جہاں پاکستان میزبان ہونے کے ناطے فیورٹ ٹیموں میں شامل ہے، اسکواڈ کے انتخاب نے شائقین اور ماہرین کے درمیان ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
یہ اسکواڈ کچھ مضبوط پہلوؤں کے ساتھ میدان میں اتر رہا ہے، لیکن اس میں چند ایسی کمزوریاں بھی ہیں جو پاکستان کے چیمپئن بننے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ آئیے اس اسکواڈ کا ایک تنقیدی اور تجزیاتی جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان نے اس بار ایسے کھلاڑیوں کو موقع دیا ہے جنہوں نے ماضی میں بڑی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔
فخر زمان کی واپسی کو تاریخی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ وہ دو ہزار سترہ کے فائنل میں بھارت کے خلاف یادگار سنچری بنا چکے ہیں۔ تاہم، فخر پچھلے کچھ عرصے سے مسلسل انجریز اور فٹنس مسائل کا شکار رہے ہیں۔
وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس تو آ گئے ہیں، لیکن کیا وہ اپنی فارم دوبارہ حاصل کر پائیں گے؟ یہی سوال ٹیم کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔
اسی طرح، خوشدل شاہ اور فہیم اشرف کی واپسی بھی حیران کن رہی، کیونکہ دونوں کھلاڑی کافی عرصے سے قومی ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔
خوشدل شاہ کی سلیکشن کا جواز ان کی لیگ کرکٹ میں حالیہ پرفارمنس بتایا جا رہا ہے، لیکن ون ڈے کرکٹ میں ان کی کارکردگی اب تک زیادہ متاثر کن نہیں رہی۔
فہیم اشرف کی آل راؤنڈ صلاحیتوں کے باوجود ان کی فارم اور بولنگ میں اعتماد کی کمی نظر آئی ہے۔
دوسری جانب، سعود شکیل کی واپسی مثبت فیصلہ ہے، کیونکہ وہ ایک مستند بلے باز ہیں اور ون ڈے کرکٹ میں ان کا اسٹرائیک ریٹ اور مستقل مزاجی ٹیم کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان نے اس اسکواڈ میں صرف ایک مستند اسپنر ابرار احمد کو شامل کیا ہے، جبکہ دیگر اسپنرز سلمان علی آغا اور خوشدل شاہ جز وقتی ہیں۔
اسپن وکٹوں پر یہ ایک کمزور پہلو ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب ٹورنامنٹ کے کچھ اہم میچز متحدہ عرب امارات میں ہوں گے، جہاں اسپنرز کا کردار انتہائی اہم ہوگا۔
پاکستان کا اسپن ڈیپارٹمنٹ ہمیشہ سے ایک مضبوط پہلو رہا ہے، لیکن اس بار یاسر شاہ، شاداب خان، یا کسی اور تجربہ کار اسپنر کو شامل نہ کرنا ایک رسکی فیصلہ لگتا ہے۔ کیا ابرار اکیلے پاکستان کے اسپن بولنگ کا بوجھ اٹھا سکیں گے؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
پاکستان کا فاسٹ بولنگ اٹیک کاغذ پر کافی مضبوط نظر آ رہا ہے۔ شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، نسیم شاہ اور محمد حسنین جیسے بولرز کسی بھی بیٹنگ لائن اپ کو مشکلات میں ڈال سکتے ہیں۔
مزید پرئیے:https://urdu.thepenpk.com/?p=5929
شاہین کی قیادت میں یہ پیس اٹیک پاکستان کی سب سے بڑی طاقت ثابت ہو سکتا ہے، بشرطیکہ بولرز مکمل فٹنس کے ساتھ ایونٹ میں شرکت کریں۔
تاہم، پاکستان کا فاسٹ بولنگ اٹیک حالیہ دنوں میں انجری مسائل سے دوچار رہا ہے۔ اگر نسیم شاہ یا حارث رؤف جیسے بولرز انجری کا شکار ہو جاتے ہیں، تو متبادل کے طور پر کوئی مضبوط بیک اپ موجود نہیں ہے۔
پاکستان کی سلیکشن کمیٹی نے اس بار تجربے کو نوجوان ٹیلنٹ پر ترجیح دی ہے، جس کی وجہ سے کئی باصلاحیت کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ نہیں ملی۔
صائم ایوب، عبداللہ شفیق، محمد حارث اور صوفیان مقیم جیسے کھلاڑیوں کا اخراج حیران کن ہے۔
خاص طور پر عبداللہ شفیق جیسے تکنیکی طور پر مضبوط بلے باز کی عدم موجودگی، جو ایک مستحکم اوپنر ثابت ہو سکتے تھے، ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ لگتا ہے۔
صائم ایوب کو نظرانداز کرنا بھی سمجھ سے باہر ہے، کیونکہ وہ حالیہ دنوں میں پاکستان کے سب سے زیادہ باصلاحیت نوجوان بلے بازوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ پھر بھی اسکے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ انجری کا شکار ہے جس کے باعث وہ ٹیم کا حصہ نہیں ہے۔
پاکستان کی اس ٹیم کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں بیلنس کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ بیٹنگ لائن اپ کا زیادہ تر انحصار بابر اعظم، محمد رضوان، اور فخر زمان پر ہوگا، جبکہ مڈل آرڈر میں کوئی ایسا فِنشر نظر نہیں آ رہا جو دباؤ میں کارکردگی دکھا سکے۔
اسی طرح، اگر اسپن بولنگ میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے، تو پاکستان کے پاس متبادل پلان موجود نہیں ہے۔ دوسری ٹیموں کی طرح پاکستان کو بھی مختلف کنڈیشنز کے مطابق متبادل کمبی نیشنز تیار رکھنے ہوں گے۔
پاکستان کے پاس اس ٹورنامنٹ کو جیتنے کا بہترین موقع موجود ہے، خاص طور پر ہوم کنڈیشنز میں۔
لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ ہر کھلاڑی کی فارم اور فٹنس کو باریک بینی سے جانچے۔
چیمپئنز ٹرافی سے قبل سہ فریقی سیریز میں پاکستان کو بہترین کمبی نیشن تلاش کرنے کا موقع ملے گا۔
اگر ٹیم نے اپنی کمزوریوں پر قابو پا لیا اور درست پلیئنگ الیون کا انتخاب کیا، تو پاکستان نہ صرف سیمی فائنل میں پہنچ سکتا ہے بلکہ ایک بار پھر ٹرافی اپنے نام کر سکتا ہے۔
لیکن اگر بیلنس، اسپن بولنگ اور مڈل آرڈر کے مسائل حل نہ کیے گئے، تو پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ یہ اسکواڈ بلاشبہ باصلاحیت ہے، لیکن کیا یہ چیمپئن بننے کے لیے مکمل تیار ہے؟ یہ سوال ابھی باقی ہے۔