پاکستان میں استاد، لیکچرار اور پروفیسر کی اصل قابلیت کیا ہونی چاہیے؟

سلیم رضا

0

اسلام آباد:پاکستان میں ہر شعبے میں افرا تفری اور غیر سنجیدگی کا ماحول ہے، اور اس سے سب سے زیادہ تر متاثر ہونے والا شعبہ تعلیم ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں ڈاکٹر، ڈینٹسٹ، آنکھوں کے ماہر تو کیا، استاد بننے کے لیے بھی معیاری تعلیم کی کوئی خاص اہمیت باقی نہیں رہی۔
ایک طرف سڑکوں پر عطائی حکیم انسانوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں تو دوسری طرف تعلیم جیسے نازک شعبے میں غیر تربیت یافتہ اور ناتجربہ کار افراد “استاد”، “لیکچرار” اور یہاں تک کہ “پروفیسر” بنے بیٹھے ہیں۔
ایک پیشہ ور اور باصلاحیت استاد، لیکچرار اور پروفیسر بننے کے لیے دراصل چند اہم تقاضے ہونے چاہییں۔

1. استاد کی بنیادی تعلیم اور قابلیت

پاکستان میں بدقسمتی سے میٹرک میں تیسری ڈویژن سے پاس ہونے والے افراد بھی ٹیوشن سینٹر کھول کر خود کو استاد ظاہر کرتے ہیں۔
بعض اسکول مالکان تو ایسے افراد کو بطور ہیڈ ٹیچر یا پرنسپل رکھ لیتے ہیں جن کی تعلیم خود پرائمری سے زیادہ نہیں ہوتی۔

ایک پیشہ ور استاد بننے کے لیے کم از کم درج ذیل قابلیت کا درکار ہونا ضروری ہے:

تعلیمی سطح پر کم از کم بیچلر ڈگری (B.A/B.Sc) حاصل ہونا ضروری ہے، اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے B.Ed (بیچلر آف ایجوکیشن) یا M.Ed (ماسٹر آف ایجوکیشن) کی ڈگری کا حصول لازم ہے۔
اس سے استاد کو بچوں کی بہترین رہنمائی فراہم کرنے کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے، تاکہ وہ بچوں کو اپنی صلاحیتوں کا ادراک کروا کر ترقی کی راہوں پر گامزن کر سکیں۔
علمی و تدریسی مہارت کے ساتھ نصاب سے مکمل واقفیت ہونا بھی ضروری ہے، بچوں کی نفسیات، اور تدریس کے جدید طریقوں سے آگاہی لازم ہے۔
زبان و بیان کی مہارت میں اردو و انگریزی دونوں زبانوں میں بہتر اظہار اور مؤثر گفتگو کی صلاحیت کا حامل ہونا چائیے۔
ایک استاد کا کام صرف سبق یاد کرانا نہیں بلکہ طلباء کی شخصیت سازی، سوچنے کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور اخلاقی تربیت فراہم کرنا بھی اہم جزو ہے۔

2. لیکچرار: اعلیٰ تعلیم، تحقیق اور فہم کا حامل استاد

سرکاری اور نجی کالجوں میں “لیکچرار” کا لقب بڑے فخر سے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اکثر یہ صرف ایک رسمی عنوان بن کر رہ گیا ہے۔ بعض نجی کالجز میں تو بی اے پاس افراد بھی خود کو لیکچرار کہلواتے ہیں۔
ایک اصل اور قابل لیکچرار کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم تعلیمی قابلیت ماسٹرز ڈگری (M.A/M.Sc) کسی متعلقہ مضمون میں ہو۔
علمی مہارت میں مضمون پر گہری گرفت، تدریس کے جدید طریقوں سے واقفیت اور پیشہ ورانہ تجربہ کم از کم تین سے دو سال کا ہونا چائیے۔
تدریسی تجربہ، معلومات کی تازگی، ریسرچ، سیمینارز اور سائنسی جرائد سے رابطہ ہونا ضروری ہے۔
محض کتابی علم کافی نہیں، بلکہ سوال اٹھانے اور ان کے حل تجویز کرنے کی اہلیت بھی لازم ہے۔
لیکچرار کا کردار صرف کلاس روم تک محدود نہیں ہوتا بلکہ تعلیمی پالیسیوں، نصاب کی بہتری اور ریسرچ میں بھی اس کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔

مزید پرئیے:https://urdu.thepenpk.com/?p=5309

3. پروفیسر: علمی قیادت کا مظہر

پاکستان میں “پروفیسر” کا لقب بھی اکثر بے دریغ اور غلط طریقے سے استعمال ہوتا ہے۔
کوئی بھی استاد خود کو پروفیسر کہہ دیتا ہے، چاہے وہ پرائمری اسکول کا ٹیچر ہو یا نجی ادارے کا لیکچرار۔ حالانکہ پروفیسر بننا ایک علمی سفر کا حاصل ہوتا ہے، نہ کہ محض ایک عہدہ۔

ایک پروفیشنل پروفیسر بننے کے لیے درج ذیل اہلیت ہونا ضروری ہے:

تعلیمی سطح پر کم از کم پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) تحقیقاتی مقالات، ریسرچ پراجیکٹس، بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت ایک انتہائی اہم جزو ہے۔
اس کے علاوہ، کم از کم دس سے پندرہ سال کا تدریسی و تحقیقی تجربہ کا ہونا بھی ضروری ہے۔
رہنمائی کے کردار میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباء کی رہنمائی اور ڈیپارٹمنٹ سطح پر قیادت فراہم کرنا بھی لازم ہے۔
سوشل اور تعلیمی شراکت میں سوسائٹیز، اداروں اور یونیورسٹی کی پالیسیوں میں فعال کردار ادا کرنا چائیے۔
ایک پروفیسر صرف درس و تدریس کا ماہر نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک دانشور، رہنما اور علمی دنیا میں پاکستان کی نمائندگی کا فریضہ بھی ادا کرتا ہے۔

تعلیمی معیار کی بحالی: ایک ضروری اقدام

پاکستان کو ایک باشعور، تعلیم یافتہ اور فکری طور پر مضبوط قوم بنانے کے لیے سب سے پہلے ہمیں تعلیم کے میدان میں معیار، اہلیت اور تربیت کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ عطائی اساتذہ، جعلی لیکچرارز اور خود ساختہ پروفیسرز کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات، تعلیمی پالیسی میں شفافیت، اور قابلیت کی بنیاد پر بھرتیوں کی اشد ضرورت ہے۔
ورنہ، تعلیمی نظام ایسے ہی زوال کا شکار رہے گا جیسے آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد کسی فرد یا ادارے کی توہین کرنا نہیں، بلکہ تعلیمی میدان میں بہتری کے لیے ایک سنجیدہ مکالمے کا آغاز ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.