اشتیاق صاحب
برطانیہ میں اقلیتوں کے حوالے سے بہت سے مسائل ہیں جن کی اگر گنتی کی جائے تو ایک طویل فہرست بنتی ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ نسل اور مذہبی تعصبات جیسی موذی بیماریاں برٹش سوسائٹی میں دھنسی ہوئی ہیں بلخصوص مسلمانوں کے خلاف تو تعصبی زہر کے اثرات روزمرہ زندگی کے معملات میں تسلسل سے پائے جاتے ہیں ۔
لیکن اس کے باوجود اکثر مسلمان برطانیہ میں بانسبت مسلمان ممالک کے زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔
اس کی کیا وجوہات ہیں؟
میرے ایک بزرگ برٹش پاکستانی دوست جو ۶۰ کی اول دہائی سے برطانیہ میں اپنی چوتھی پشت کے ساتھ مقیم ہیں ، لیکن جن کا پاکستان میں آنا جانا رہتا ہے ۔
جب میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے ریٹائیر منٹ کے بعد پاکستان میں مستقل رہائش کیوں نہیں اختیار کی حالانکہ پاکستان کے ساتھ آپ کا گہرا تعلق ہے اور آپ کی پنیشن بھی معقول ہے۔
وہاں کا موسم بھی بزرگوں کے لیئے صحت کے حوالے سے اچھا ہے اور میری معلومات کے مطابق آپ نے مکان بھی اچھا خاصا بنا رکھا ہے لیکن پھر بھی آپ پاکستان میں مستقل رہائش رکھنے کے قائل نہیں ؟
بزرگ دوست نے چند سکینڈ خاموشی اختیار کرنے کے بعد گہرا سانس لیتے ہوئے بڑے تحمل کے ساتھ میرے سوال کے جواب کا آغاز کرتے ہوئے کہا:
“یہ درست ہے کہ میری پینشن پاکستان میں رہائش کے لیئے معقول آمدنی ہے، اور وہاں پر میرے پاس رہائش کے لیئے ایک خوبصورت سا گھر بھی ہے جس میں تمام سہولتیں موجود ہیں اور گاڑی کا بھی انتظام ہے-
یہ سب کچھ ہونے کے باوجود میرے لیئے وہاں زیادہ عرصہ رہنا مشکل ہے۔ اس میں میری سب سے پڑی ضرورت میڈیکل ہے ، آئے دن مجھے ڈاکڑ اور ہسپتال کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔
برطانیہ میں میرا علاج معالجہ گورنمنٹ کی ذمہ دادی ہے، یہاں بزرگوں کا تو ویسے بھی بہت خیال رکھا جاتا ہے ۔ پاکستان میں علاج خریدہ جاتا ہے اور ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو اُنکی منہ مانگی فیس دینے کے باوجود بھی تسلی بخش علاج میسر نہیں ہے۔
ڈاکڑ تو پرچون کی دکانیں لگائے بیٹھے ہیں ، ان میں اکثر ڈاکٹر نہیں ہوتے اور دوا ئیں بھی نمبر دو اور تین ہوتی ہیں ۔ مجھے تو یہ بھی ڈر رہتا ہے کی کوئی مجھے سے روپے بٹورنے کے چکر میں خوامخواہ کے مقدمہ بازی میں نہ گسیٹ لے ، اور مجھ میں اتنی ہمت نہیں کے تھانوں اور کچریوں کا چکر لگاؤں اور قانون کے نام لیوا محافظوں کی اپنی حلال کی کمائی سے جیبوں کو گرم کروں ، وہاں قانون نام کی چیز نہیں ہے۔
جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والی بات ہے ۔ یہاں میں نماز باقاعدگی سے محلے کی مسجد میں ادا کرتا ہوں یہ خدشہ نہیں ہوتا کہ واپسی ہو گی بھی یا نہیں ؟ لیکن ہمارے پاکستان میں تو مسجد میں نماز کے لیئے بھی کفن باندھ کر جانا پڑتا ہے ، واپسی کا کوئی یقین نہیں ہوتا-
پھر روز مرہ کی سیاسی افرا تفری – پچھلے دنوں بریڈفورڈ میں ڈیوک آف ویلز جو رائل فمیلی کا اہم رکن اور کنگ چارلس کا خاص نمائندہ ہے ، شہر میں آیا اور چلا بھی گیا لیکن متعلقہ افراد کے علاوہ کسی کو پتہ تک نہیں چلا، نہ ہی سڑکیں بند ہوئی اور نہ پولیس اور سکیورٹی نے کسی کو تنگ کیا-
ہمارے پاکستان میں تو ایک تیسرے گریڈ کا افسر بھی اگر سفر کرتا ہے تو سرڑکیں بند ، ٹریفک بند اور مسافروں کا جینا محال ہو جاتا ہے ۔ اور آخری بات جو میں نے محسوس کی ہے وہ ہے جھوٹ ، جس کو عبادت سمجھ کر بولا جاتاہے ، یہ وہ چیزیں ہیں جو مجھے بار بار انگلینڈ واپس آنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔”
میں بزرگ کی باتیں سن کر خاموش رہنے میں غنیمت سمجھی ۔ بزرگ کی کھری کھری باتیں سن کر دکھ تو ضرور ہوا لیکن ان سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مملکت پاکستان کو مملکت اسلامیہ بننے کے لیئے بہت سفر کرنا ہو گا ، ایسا خواب جس کی تعبیر بھی ایک خواب ہے ۔
زندگی کا ایک طویل حصہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ اور جمہوری ملک جہاں انفرادی اور مذہبی آزادیاں، جدید سہولیات ، مفت علاج معالجہ کے علاوہ جمہوری ماحول اور انصاف کے اداروں تک آسان رسائی مہیا ہو ہم کیسے اپنے آبائی وطن میں جہاں غربت، دھوکہ، فراڈ، بے ایمانی اور عدم تحفظ اور انصاف کا بول بالا ہو چند ہفتوں کے عرصے سے زائد خوش باش اور مطمئن رہ سکتے ہیں باوجود اس کے کہ ہمارا اپنے آبائ وطن کے ساتھ جذباتی رشتہ کافی حد تک مضبوط ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں آج بھی عام شہری کی شدید خواہش ہے کہ وہ حتہ کہ اپنے اثاثوں کو فروخت کر کے کسی ایسے ملک میں چلا جہاں اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیوں میں بہتری لا سکے۔
تاریخ شاہد ہے کہ انسان ہزاروں سال سے بہتر معاش کی تلاش میں
اپنے وطن سے ہجرت کرنے کےعمل کو ترجیح دی۔ اور پھر جس ملک کا مہاجر بنا اسی کو وقت گزرنے کے ساتھ اسے اپنا ملک اپنا لیا۔ ہماری ترک الوطنی یا ھجرت کی کچھ ایسی ہی کہانی ہے۔ بس کچھ مزید وقت کا ہمیں انتظار کرنا ہے۔!!