گوجر خان:بلاشبہ میرپورشہرکے الجبیرہوٹل میں محمد عجیب کے سفر زندگی پر مبنی سوانح عمری“ میں عجیب ہوں!“ کی تقریب رونمائی میں میرا مدعو کیا جانا اور پھر عجیب بھائی اور کتاب کے حوالے سے گفتگو کا موقعہ میسر ہونا میرے لیئے بہت ہی اعزاز کا مقام تھا۔
تقریب کا اہتمام پاکستاُن پریس کلب لٹریری اینڈ کلچرل فورم نے کیا تھا اور اس کی میزبانی کے فرائض فورم کے چیئرمین ساجد یوسف نے نہائیت ہی احسن انداز میں ادا کیئے جس کے لیئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں –
تقریب میں ادب اور صحافت کی دنیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے کثیر تعدا میں شرکت فرما کر تقریب کے ذوق و شوق کو دوبالا کر دیا ۔ تقریب کی صدارت سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر، عزت مآب اعظم خان نے کی جب کہ محمد عجیب سی بی ای ہر پہلوُ سے موضعوں مہمان خصوصی تھے۔
کتاب ‘میں عجیب ہوں’،پاکستان سے انگلینڈ’ کے مشہور مصنف یعقوب نظامی، جو کہ محمد عجیب کا قریبی دوست اور تربیت یافتہ نو رتن ہونے کا برملا اقرار کرتے ہیں ، محمد عجیب کی کہانی، ان ہی زبانی کو بہت ہی لگن اور محنت سے مرتب کر کے اہل ذوق، سیاست اور فلاح و بہبود کے کارکنوں کو ایک انمعول تحفہ پیش کیا ہے
کتاب میں، محمد عجیب نے ضلع میرپورکےمضافاتی گاؤں چھترومیں بچپن کے دنوں سے لے کر کراچی 1954 میں اپنی پہلی ہجرت اور پھر 1957 میں برطانیہ کی طرف اپنی دوسری ہجرت اور برطانیہ میں رہائش، روزگار، کمیونٹی ویلفیئر، مساوات اور انسانی حقوق اور سیاسی تگو دے کا تفصلی ذکر ہے جس کو یعقوب نظامی بھائی نے مہارت سے تحریر کے سانچے میں ڈال کر بہت ہی عمدہ کتاب پیش کی ہے ۔
“ میں عجیب ہوں!“ صرف ایک فرد کی بیرون ملک میں جدو جہد کی ہی داستان نہیں بلکہ ان تمام پاکستانیوں اور کشمیریوں کی داستان ہے جہنوُں نے اپنے ملک کے نامساعد حالات کے پیش نظر ۵۰ اور ۶۰ کی دہاہیوں میں اپنے وطن عزیز سے ہجرت کر کے برطانیہ کو اپنا مسکن بنایا اور اپنے ناآسودہ حالات کو بہتر بنانے کی خاطر تن من لگا دیا۔
اس نظرسے محمد عجیب کی سوانح عمری صرف ان کی نہیں بلکہ تمام برٹش پاکستانیوں اور کشمیر یوں کی سوانح عمری ہے جو یعقوب نظامی کی قلم سے وجود میں آئی ۔
اس میں ایک کمیونٹی کو ایسے بیرون ملک میں جس نے ہم پر صدیوُں حکمرانی کی اور ہمیں غلامی جیسی لعنت سے دوچار رکھا اور انسانوں کے کہٹیرے سے بار سمجھا -لہٰذا جب سابقہ غلام اس سوسائٹی میں روز معاشُ کے لیئے جاتے ہیں تو ان سے کیسا سلوک اور برتاوُ کیا جا تا ہےعجیب بھائی کی سوانح عمری میں یہ سب کچھ تفصیل سے ملتا ہے ۔
عجیب بھائی کی داستان میں جہاں انگریزوں کے منفی رویوُںاور تعصبات کا تفصیلی ذکرہے وہاُں مختلف شعبوں میں کامیابیوں کا بھی اعتراف ہے مثلاً آزادی رائے، مذہبی آزادی، قانونی تحفظ، روزگار اور کاروبار کے مواقعے، سیاست، تعلیم ، ہیلتھ وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے ملک میں ان تمام شعبوں میں ایک عام پاکستانی/ کشمیری شہری کو بہت سی دقتوُں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان اور کشمیر میں ان سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے پرطانیہ میُں تعصبات اور منفی رویوں کے باوجود پاکستانی/ کشمیری وہاں رہنا پسند کرتے ہیں ۔
“ میں عجیب ہوں!“ برطانیوی پاکستانیوُں اور کشمیریوں کی سیاسی، مذہبی اور ثقافتی تشکیل دے متعلقہ بھی دلچسپ بصیرت فراہم کرتی ہے۔
برطانیہ پہنچنے پر، محمد عجیب صرف ‘کماواورجیو’ کی سوچ تک مطمئن نہیں تھے۔ انھوں نے بہت جلد اپنے آپ کو کمیونٹی کے سماجی اور سیاسی معاملات میں متحرک کر لیا ، ابتدا ہی میں مقامی ٹریڈ یونین اور مساوات اور انسانی حقوق کی لابیوں میں سرگرم ہو گئے-
فطری طور پر لیبر پارٹی کی طرف رحجان تھا اور اس کی رکنیت اختیار کی اور اپنے پروفیشنل ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ لبیر پارٹی میں عملی طورحصہ لینا شروع کر دیا اور پہلی بار 1979 میں ضلعی انتخابات میں بریڈ فورڈ کونسل کے لیے منتخب ہوئے اور 1985 میںُ انہیں بریڈ فورڈ ڈسٹرکٹ کونسل کا پہلا غیر سفید فام لارڈ میئر مقرر کیا گیا- یہ ایک تاریخی امر تھا-
اس کی اہمیت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ عجیب بھائی کے لارڈ میئر بننے کے بعد ایک انگریز نے ااسٹریلیا سے خط میں لکھا کہ کتنا چھا ہوا کہ میں ایک رنگدار کے لارڈ میئر بننے سے پہلے ہی شہر چھوڑ آیا ۔
خط کی اصل عبارت تعصب اور نفرت کے زہر میں ڈُبی ہوئی تھی ۔میں نے گوارہ نہں سمجھا ان توہین آمیز الفاظ کو دہراؤں ۔
عجیب بھائی نے سیاسی پیش رفت میں درپیش آنے والی تمام مشکلات اور چیلنجوں کا تفصیلی ذکر کیا جو سیاہ فام اور ایشائی سیاستدانوں کو برطانیہ کی سیاسی جماعتوں میں عملا درپیش ہیں-
کتاب میں، محمد عجیب نے اپنے ذاتی، پیشہ ورانہ، سیاسی اور اجتماعی سفر کو بڑی صاف گوئی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ زندگی کا کوئی ایک پہلوںبھی ایسا نہیں جس کو پوشیدہ رکھا گیا ہو۔
اس محنت طلب کام کی وضاحت میں مصنف کتاب لکھتے ہیں“ کتاب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کو یہ معلوم ہو سکے کہ برطانیہ میں ہماری پہلی نسل نے کن کن مشکلات کا سامنا کیا “ ۔
یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ان مشکالات سے نبٹنے کے لیئے فہراست اور حکمت سے کام کی کیا اہمیت ہے ۔ عجیب بھائی نے ہمیشہ یہ موقف اپنایا کے مسلہ کتنا ہی گمبیر ہو فہراست اور حکمت کے دامن کو نہیں چھوڑنا جائیے اور اخلاق اور قانون کے دائرے سے باہر نہیں ہونا چاہئے ۔ اپنے حقوق کے لیئے جرآت مندانہ جدو جہد کرو لیکن دوسرے کی توہین سے گریز کر یں ۔
میری پہلی ملاقات عجیب بھائی سے ۷۰ کی دہائی کے آخری سالوں میں ہوئی اور تب سے انھوں نے میری ہمیشہ رہنمائی اورحوصلہ افزائی کی اور ساتھ کا یہ سفر دوستی اور بھائی چارے میں بدلتا گیا۔
عجیب بھائی صرف خود ہی آگے نہیں بڑے بلکہ دوسروں کو بھی ساتھ لے کر چلے ہیں ۔ قوم کی ارتقا کا آساس رکھنے والے لیڈر کی یہ نمائیاں نشانی ہے ۔ ان کے ہراول دستے میں سے کہیں آگے جا کر لارڈ میئر بنے، کہیں کونسلرز اور کچھ نے ممبر آف پارلیمنٹ کی سیٹیں حاصل کیں ۔جس ہراول دستے کہ یہ سپہ سالار ہیں اس میں اور یعقوب بھی شامل ۔
یہ ہماری لیئے شرف کا مقام ہے پاکستان پریس کلب لٹریری اور کلچرل فورم کا تہہ دل سے معمون ہوں کہ انھوں نے تقریب رہنمائ کم لیکن بر وقت میں اہتمام کیا- یقینا” پریس کلب کی تاریخ میں یہ تقریب اور یہ کتاب تاریخی مقام پائے گی –