کوئٹہ: ماما اسماعیل جو پچھلے 20 سالوں سے کوئٹہ شہر کے مغربی پہاڑوں کے پاس ٹیوب ویلوں پر کام کرتے ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں میں واٹر ٹینکرز کے ذریعے پانی سپلائی کرتے ہیں- ان کے مطابق جب انہوں نے ٹیوب ویلوں کے ذریعے پانی نکالنا شروع کیا تو پانی کی سطح تقریباً 180 سے 200 فٹ تک تھی-یہ تقریباً دس سال پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد یہ سطح آہستہ آہستہ نیچے جاتی رہی اور اب 1100 فٹ تک پہنچ چکی ہے۔
جامعہ بلوچستان کے شعبہ ارضیات کے پروفیسر عمران بادینی نے بتایا کہ کوئٹہ شہر میں زیر زمین پانی کی سطح تقریباً 2010 سے 2023 تک 30 میٹر تک نیچے جا چکی ہے۔ 2008 سے 2022 تک کوئٹہ کی زمین تقریباً 2 میٹر تک دھنس گئی ہے-انڈر گراؤنڈ واٹر کا لیول نیچے چلے جانا ایک انسانی المیہ کو جنم دے سکتا ہے۔
آبادی میں خاطر خواہ اضافہ :
بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے جبکہ صوبائی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے شہر میں روزانہ بڑے بڑے عمارات تعمیر کیے جارہے ہیں۔ جبکہ کوئٹہ منتقل ہونے والی ایک بڑی آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے پانی کی ضرورت پیش آئی ہے۔ کوئٹہ جیسے بڑے شہر کی یومیہ ضرورت کی 94 فیصد پانی ٹیوب ویلوں سے حاصل کیا جاتا ہے-جو اس دور کا سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ زمین کو چوس کر پانی نکالا جاتا ہے۔پروفیسر عمران بادینی نے پانی کی سطح کم ہونے کی اہم وجوہات بتائی ہیں-کہ ہمارے زرعی علاقوں میں پانی کی بہت ضرورت ہوتی ہے اور بڑی مقدار میں پانی کا استعمال ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے-کہ کوئٹہ شہر کی آبادی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ 2010 میں جو آبادی 17 لاکھ تھی وہ اب 2023 میں 25 لاکھ سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ زرعی اور انسانی ضروریات کی وجہ سے کوئٹہ کی پانی کی سطح کافی حد تک کم ہو رہی ہے۔
انڈیپنڈنٹ اردو میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کی 22 لاکھ آبادی کو یومیہ 54 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے جبکہ واسا اور کنٹونمنٹ کے علاقے میں ملٹری انجینرنگ سروسز کی جانب سے 24.6 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہاہے-اور شہر کو 29.5 ملین گیلن پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ واسا کے مطابق کوئٹہ میں کل 405 ٹیوب ویل ہیں-جن میں سے 51 غیر فعال ہیں۔
انڈر گراؤنڈ واٹر کا لیول کم ہونے کی وجوہات:
ماما نے بتایا کہ کوئٹہ کے اردونواح میں ڈیمز نہ ہونے کی وجہ سے بھی پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔ جب کبھی اچھی خاصی بارش یا برف باری ہو تی ہے تو پانی کی سطح تھوڑی بہت اوپر آ جاتی ہے لیکن پھر بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
چھوٹے ڈیمز بنانے کی ضرورت:
پروفیسر عمران بادینی پانی کے لیول کو برابر کرنے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ زیر زمین پانی کی سطح واپس لانے کے لیے شہر کے اندر چیک ڈیمز بنانے چائیے اور اسی طرح ری سائیکل واٹر کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے-جسے زرعی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے زمینی پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
ماما اسماعیل کاکہناہے کہ اگر ڈیمز بنائے جائیں تو مستقبل میں پانی کے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی عمل نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں یہاں ایک بوند بھی پانی نہیں ہوگا۔ شروع میں پانی کی سطح 180 فٹ تھی مگر اب وہ سطح 1100 فٹ تک پہنچ گئی ہے۔ اگر کوئٹہ میں مزید ڈیمز نہ بنائے گئے تو یہاں پانی کی شدید قلت ہوگی۔اگر ری سائیکلنگ اور ڈیمز کے ذریعے پانی کے لیول کو برابر کرنے میں کامیابی ہوئی تو اسے برقرار کیسے رکھا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں پروفیسرعمران بادینی نے بتایا کہ پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے عوام میں شعور پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ وہ بے دریغ پانی کو ضائع نہ کریں۔ جیسے کہ گھریلو کاموں میں ہماری خواتین پانی کو بے دردی سے ضائع کر رہی ہوتی ہیں اور سروس اسٹیشنز پر بھی پینے کے پانی کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان پر پابندی عائد کرے اور انہیں تاکید کرے کہ صرف وہ پانی استعمال کریں جو پینے کے قابل نہ ہو۔بلا ضرورت پانی کو مزید ضائع نہ کریں-
ڈیمز اور ری سائیکلنگ کے علاوہ اور کن طریقوں سے کوئٹہ کے زمینی پانی کی سطح کو ریچارج کیا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں پروفیسرعمران بادینی نے بتایا کہ زمینی پانی کی سطح کو ریچارج کرنے کے لیے کوئٹہ شہر کے اطراف میں جو بیسنز ہیں ان کے پانی کو پائپ لائنز کے ذریعے کوئٹہ کے پانی کی سطح کو ریچارج کیا جا سکتا ہے۔
ڈیمز سے کئی علاقوں میں پانی کا مسلئہ حل ہوا:
کوئٹہ، لسبیلہ، تربت اور ژوب جیسے علاقوں کو بھی پانی کی کمی کا سامنا کرناپڑا۔ ان علاقوں میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ڈیم بنائے گئے۔ کراچی اور لسبیلہ کے لیے حب ڈیم، تربت کے لیے میرانی ڈیم اور ژوب کے لیے سبکزئی ڈیم بنایا گیا۔پہلے یہ شہر اپنی پانی کی ضروریات کو کنوؤں، بارش کے پانی کو جمع کرکے اور قدرتی چشموں سے پوری کرتے تھے۔ لیکن اب ڈیم بنے کی وجہ سے پانی کی مشکلات کافی حد تک حل ہو گی ہیں-اور لسبیلہ میں کاریز نظام اور چھوٹے ڈیم بارش کے پانی کو جمع کرتے تھے۔لیکن اب آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ پرانے طریقے ناکافی ہو گئے ہیں-اوراس لیے جدید ڈیموں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ میرانی ڈیم نے تربت میں پانی کی فراہمی، سیلاب کنٹرول اور آبپاشی کو بہتر بنایا-اور سبکزئی ڈیم نے ژوب میں پانی کی قلت کو کم کیا۔ حب ڈیم نے کراچی اور لسبیلہ میں پانی کی فراہمی کو بہتر بنایا-
زیر زمین پانی نکالنے کے مستقبل میں شہر پر اثرات:ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئٹہ میں یونہی پانی کی ضرورت ٹیوب ویلوں کے ذریعے پوری کی جاتی رہی اور زمینی پانی کی سطح مسلسل نیچے جاتی رہی تو یہاں کے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کا واحد حل بعض ماہرین کے مطابق کوئٹہ کی ذیر زمین پانی کے لیول کو ریچارج کرنا ہے، مگر کیسے؟ اس کے جواب میں پروفیسرعمران بادینی نے بتایا کہ اگر اس پر عمل نہ کیا گیا تو مستقبل میں یہ نقصانات ہو سکتے ہیں کہ زمین کی اندرونی دراڑیں مزید پھیل جائیں گی-جس کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان کا خدشہ ہوگا۔ زمینی پانی کے ساتھ آلودہ پانی مکس ہونے کی وجہ سے کئی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ ایکوفیر میں آلودہ پانی داخل ہونے کی وجہ سے اس کی ساخت متاثر ہو سکتی ہے جس سے اس کے سائز میں کمی واقع ہوسکتی ہے-اوراسے دوبارہ ریچارج کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔