غربت نے باپ کو سفاک بنا دیا، اپنی ہی تین سالہ بچی کو قتل کردیا
عمران ٹکر
پشاور: تھانہ پھندو کی حدود گنج قاضی آباد میں ملزم آیاز ولد علی اکبر نے مبینہ طور پر اپنی تین سالہ بیٹی کو تیز دھارالہ سے وار کرکے قتل کر دیا ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم نہ تو نشئ ہےاور نہ اسکی دماغی توازن خراب ہے بلکہ بیروزگاری اور بڑا کنبہ ھونے کی وجہ سے معاشی بدحالی کا شکار ہے
مقامی زرائع کے مطابق ملزم کے سات بچے ہیں جن میں 5 بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں جن میں مقتولہ بچی سب سے کم عمر کی ہے۔
مقتولہ بچی کا والد بے روزگار ہے اور نہایت تنگ دستی کی زندگی گزار رہا ہے۔
مقامی پولیس نے ملزم کو گرفتار کرکے ایف آئ آر درج کی ہے جبکہ مزید تفتیش جاری ہے۔
ابتدائ رپورٹ کے مطابق قاتل محمد آیاز کی بیوی نے ایف آئ آر درج کرتے ھوئے کہا کہ مغرب سے پہلے جب اس نے دیکھا کہ اسکی بیٹی نظر نہیں آرہی ہے اور جب وہ اسکو ڈھونڈنے گھر کی چھت کی طرف دوڑھنے لگی تو اسکے شوہر کے ہاتھ میں خون آلود چھری تھی جو سیڑھیوں پر بیٹھا ھوا تھا جب وہ چھت پر گئ تو دیکھا کہ اسکی معصوم بچی کا لاش پڑا ھوا تھا۔
واقعہ کی اطلاع ملتے ہی مقامی پولیس نے موقع پر پہنچ کر ملزم آیاز ولد علی اکبر کو آلہ قتل سمیت گرفتار کرلیا۔ جبکہ اصل حقائق جاننے کیلئے مقامی پولیس نے مزید تفتیش شروع کردی ہے.
پشاور سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن قمر نسیم کے مطابق واقعہ انتہائی افسوسناک اور دل دہلا دینے والا ہے۔
یہ ایک اور مثال ہے جو ہمیں معاشرتی مسائل اور ذہنی صحت کی بڑھتی ہوئی خرابیوں کی سنگینی کا احساس دلاتی ہے۔ جب کوئی فرد اپنے بچوں یا خود کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہو جائے تو اس کے پیچھے عموماً ذہنی صحت کے مسائل ہوتے ہیں۔
انگریزی سٹوری کے لیے لنک پر کلک کریں:https://thepenpk.com/man-allegedly-kills-daughter-due-to-economic-hardship/
قمر نسیم نے مزید کہا کہ ذہنی صحت کے مسائل جیسے ڈپریشن، اینزائٹی، اور دیگر نفسیاتی بیماریوں کی وجہ سے لوگ اکثر بے بس اور مایوس ہو جاتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں وہ اپنی تکلیف اور مایوسی کا اظہار ایسے انتہائی اقدامات کے ذریعے کرتے ہیں۔
قمر نسیم نے معاشی، سماجی اور معاشرتی مسائل کے حل پر زور دیتے ھوئے کہا کہ ہمیں اپنے معاشرے میں ذہنی صحت کے مسائل کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ان کے حل کے لیے اجتماعی کوششیں کرنی چاہئیں تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔
سینئیر صحافی محمد فہیم کے مطابق موجودہ دور میں معاشی اور سماجی برائیاں دن بد بدن بڑھ رہی ہیں جس سے انسان ذہنی دباو میں آجاتا ہے جبکہ کمزور ذہنیت والے لوگ اس دباو کے اثر میں آجاتے ہیں جس کے نتیجے میں متاثرہ افراد اپنے سے کمزوروں پر کسی بھی قسم کا تشدد کا مرتکب ھوجاتا ہے۔
محمد فہیم نے مزید کہا کہ ساری زمہ داری ہمارے معاشرے کی اجتماعی بگاڑ ہے جن سے زہنی بیماریاں جنم لیکر جرائم میں اضافہ ھوتا ہے جن میں اپنے لخت جگر یا دیگر خونی رشتوں کے قتل جیسے جرائم اب روز کا معمول بن چکا ہے
پھندو پولیس سٹیشن حدود میں بچی کا والد کے ھاتھوں قتل جیسے بہیمانہ جرائم روکنے کے لئے سماجی کارکنوں اور تجزیہ کاروں کے رائے کو منظر رکھتے ھوئے ہمیں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ذہنی صحت کے مسائل کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت، سماجی تنظیموں، اور عوام کو مل کر ذہنی صحت کے مسائل کے بارے میں آگاہی پیدا کرنی چاہیے اور متاثرہ افراد کی مدد کے لیے موثر طریقے وضع کرنے چاہئیں۔ ذہنی صحت کے مسائل کو سمجھنا اوران کا بروقت علاج کرنا ہی ہمیں ایسے افسوسناک واقعات سے بچا سکتا ہے۔