پشاور: افغانی خاتون جو تین کم عمر افغان بچوں کیساتھ مدینہ بائٹس سے بذریعہ رکشہ ابدرہ روڈ یونیورسٹی پشاور کی طرف جارہے تھے۔
جن پر دو نا نامعلوم نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے تیزاب پھینک کر جائے وقوعہ سے فرار ھوگئے۔
28 سالہ خاتون جو قوم سے افغانی ہے جن کے ساتھ تین 18 سال سے کم عمر کے افغانی بچے (دو لڑکیاں اور ایک لڑکا) بھی تھے وقوعہ کے نتیجے میں جھلس گئے۔ تیزاب پھینکنے سے رکشے میں بیٹھے خاتون اور بچوں کے ھاتھ اور چہرے وغیرہ جھلس گئے۔
مذکورہ افغان خاتون کی مدعیت میں مقامی پولیس سٹیشن ٹاون میں ایف آئ آر درج کرتے ھوئے کہا کہ اسکا سابقہ شوہر اور اسکا ڈرائیور اسکو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیا کرتے ہیں جنکے ایماء پر دو نامعلوم نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے ان پر تیزاب پھینکا۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ خاتون کو پہلے شوہر نے طلاق دیکر دوسری شادی کی ہے
پولیس نے مقدمہ درج کیا لیکن تا حال کوئ گرفتاری سامنے نہیں آی ہے۔ جبکہ مقامی پولیس مجرموں کی گرفتاری کے لئے کوششیں کررہی.
مقامی سپرنٹنڈنٹ کے مطابق جائے وقوعہ سے موٹر سائیکل اوراہم شواہد اکٹھا کرکے ملوث ملزم کا سراغ لگانے کیلئے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی گئ ہے اور انشاء اللہ جلد ہی ملوث ملزم گرفتار ہوکر قانون کے گرفت میں ہونگے۔
یوں متاثرہ خاتون اور بچوں کو حیات شھید ٹیچنگ ہسپتال میں ابتدائ طبی امداد فراہم کی گئ۔
جبکہ ایف آئ آر میں پاکستان پینل کوڈ کے دفعات 336 بی، 109 اور 34 درج کئے گئے۔
قانونی ماہرین کے مطابق تیزاب گردی کی سزاعمر قید تک بڑھ سکتی ہے، جبکہ اس کے ساتھ جرمانہ بھی ہو سکتا ہے، جو کہ پانچ لاکھ روپے سے کم نہیں ہو سکتا۔
تیزاب گردی کے حالیہ واقعہ پر تبصرہ کرتے ھوئے مقامی تنظیم ‘د حوا لور’ کی پروگرام ڈائیریکٹر شاہوانہ شاہ نے کہا گزشتہ چند ہفتوں کے دوران، خیبر پختونخوا اور خاص طور پر پشاور میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تیزاب گردی تشدد کی وہ شکل ہے جو طاقت کے پدرانہ استعمال اور خواتین کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی زندگی کو تباہ کرنے کی ایک شکل کے طور پر ابھرتی ہے۔
تیزاب گردی اور خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی ایک وجہ قانون سازی کا کمزور نفاذ اور سرکاری اداروں کی خدمات کے مربوط طریقہ کار میں خلا ہے۔
تیزاب گردی کے واقعات اگرچہ خیبر پختونخوا میں نہ ھونے کے برابر ہیں لیکن پھر بھی تیزاب گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ایسے واقعات ملک بھر میں ہوتے رہتے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق تیزاب گردی کے زیادہ تر واقعات سندھ اور پنجاب میں رونما ہوتے ہیں۔
لھاذا حالیہ پشاور تیزاب گردی واقعہ مدنظر رکھتے ھوئے تمام اسٹیک ھولڈرز کو تیزاب گردی کے گھناؤنے عمل کے روک تھام کے لئے ملک کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
شاہوانہ شاہ نے مزید بتایا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ اداروں پر اداروں کے قیام کی بجائے دستیاب وسائل کا استعمال متاثرہ خواتین اور بچوں کے علاج معالجے، نظام کی مضبوطی اور قانونی مدد کی فراہمی پر خرچ کیا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ جب کمیونٹی اور عوامی رویے میں تبدیلی کی بات ہے تو بہت زیادہ کام کی ضرورت ہوتی ہے جہاں نہ صرف مقامی کمیونٹیز بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز خاص طور پر پولیس کا خواتین کے خلاف تشدد کے روک تھام کے لیے اچھی طرح سے لیس ھونا چاہئے۔