اسلام آباد لوک ورثہ کے سابقہ ایگزیکٹیو ڈائریکٹرطلحہ علی کشواہا ثقافتی امور کے ماہر ہونے کیساتھ ساتھ مصنف،مصوراور موسیقار بھی ہیں،آپ پاکستان کی متعدد جامعات میں تاریخ اور ثقافت کے کورس پڑھا چکے ہیں اور اب لوک ورثہ کے پلیٹ فارم سے ثقافت کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں،آپ سے ہونے والی بات چیت نذرقارئین ہے۔
ثقافت پاکستان کی سماجی ترقی میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟
طلحہ علی کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں تخلیقی ثقافت کااہم کردارہوتاہے اور پاکستان بھی اپنی تخلیقی ثقافت سے اربوں ڈالرسالانہ کما سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم آج تک اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور ہماری معیشت بحران کا شکار ہے۔
ہمارے معاشرتی اور معاشی مسائل کی بڑی وجہ ثقافت سے دوری ہے
ثقافت کا تعلق ملک کی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان کی روحانی اور ذہنی ترقی سے بھی بہت گہرا ہے کیونکہ ثقافت کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ زندگی کا ایک مکمل لحہ عمل ہے، اس میں ہمارا مذہب، اقدار، لباس، رہن سہن، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، موسیقی، خوشی پرجھومنا اور غم میں رونا،، فلم، ڈرامہ، کام کرنے کا انداز، تعلیم، تجارت، ہنر وغیرہ سب کچھ شامل ہے،ان سب میں ثقافت ہی بہتر ی لاسکتی ہے۔ ثقافت سے دوری آج ہمارے بہت سے معاشرتی اور معاشی مسائل کی بڑی وجہ ہے، جب آپ اپنی ثقافت پر بات ہی نہیں کریں گے اسکو اپنا نہیں سمجھیں گے،اپنی زندگی اور ملک کی پالیسی کا حصہ نہیں بنائیں گے تو وہ آپ سے عقل کی بات نہیں کریگی۔ ناقدری کی وجہ سے ہماری ثقافت بھی خاموش ہے۔
پاکستان کی معاشی ترقی میں ثقافت کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟
طلحہ علی، پاکستان کی ترقی میں اب تک تو ثقافت کا کوئی کردار نہیں رہا، اگرکوئی کرداررہا بھی تو بہت چھوٹے پیمانہ پر جیسے کسی خاتون نے اپنے طور پر ہنڈی کرافٹ یا ملبوسات کو دنیا میں متعارف کرایا ہو، بڑے پیمانے پر ایسا کچھ نہیں، اس کی ایک بڑی وجہ ہماری اپنے کلچر سے دوری ہے،خصوصاًامیرطبقہ جو پاکستان کے لیے فیصلے کرتا ہے اس کا اپنے کلچر سے کوئی تعلق نہیں وہ ابھی تک ایک نوآبادیاتی ذہنیت میں جکڑا ہوا ہے وہ سمجھتے ہیں ان کا تعلق باہر سے لائی گئی اشیاء سے ہے، ثقافت ہمارے لئے مرا ہواہاتھی ہے اور مردہ ہاتھی کیسے ملک کی معاشی ترقی میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
ثقافت کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ زندگی کا ایک مکمل لحہ عمل ہے
ملکی ثقافت کو اجاگر کرنے میں لوک ورثہ کے کردار پر روشنی ڈالیں؟
طلحہ علی،لوک ورثہ نے ہمیشہ ملک کی ثقافتی زندگی کو محفوظ کرنے اوراسکودنیا میں اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا،تاہم گزرتے وقت کیساتھ اسکے کام میں وہ جذبہ نہیں رہا جو اس ادارے کو بناتا تھا شاہد یہی وجہ ہے کہ ادارے کی کارکردگی خراب تر ہوتی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس کی پہچان صرف ایک میلہ مینجمٹ کمپنی کے طورپررہ گئی تھی،حالانکہ لوک ورثہ کامقصد پاکستان کی تخلیقی صنعت کو بڑھانا،میوزیم اور کلچر کمپلیکس بنانا، ریسرچ کرنا اور اس کی دستاویزات بنانا ہے۔ اس قومی ادارے کو ہم مذاق کے طور پر نہیں لے سکتے لیکن بدقسمتی سے ہم کچھ سالوں سے اس کو لینا شروع ہو گے ہیں۔ہمیں یہ توقع ہی نہیں رہی کہ یہ ادارہ ملکی ترقی میں کتنا فعال کردار ادا کر سکتا ہے شاہد اسی سبب ہماری وزارت کے پاس پیسہ نہیں۔ انگریزکی ایک بات بڑی مزے کی ہے کہ ’اپنا پیسہ وہاں رکھو جہاں تمہارا منہ ہے‘تاہم کچھ عرصہ سے ہماری کوشش ہے کہ اس قومی ادارے کو فعال ادارہ بنائیں،کچھ حد تک کا میاب بھی رہے لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا نہ ہونا ہے،اسکے باوجودہماری کوشش ہے کہ ادارے کو معاشی طور پر خود کفیل بنائیں۔
ہماری پوری کوشش ہے کہ لوک ورثہ کو فعال اور معاشی طور پر خودکفیل ادارہ بنائیں
ملک سے کرپشن کلچر کے خاتمے کیلئے ثقافتی اقدارکے کرداربارے کیا کہتے ہیں؟
طلحہ علی، کرپشن نے کلچرکو متاثر نہیں کیا بلکہ کرپشن کا کلچر شروع تب ہوا جب ہماری مذہبی اور ثقافتی روایات متاثر ہوئیں،جب ہم نے اپنی زندگیوں میں تربیت کو اہمیت نہیں دی، ہم بی ایم ڈبلیو کے چکر میں پڑ گے۔ اس سے قطع نظرکہ پیسہ آئے کہاں سے یہ ہماری بنیادی ضرورت بن گیا۔ ہم نے اپنی ثقافتی اقدار کو چھوڑ کر مغربی اقدار کی تقلید شروع کی،تربیت کو اہمیت دئیے بغیرپیسے کو سب کچھ سمجھا اور اسکی دوڑ میں لگ گئے،اس میں کو ئی ایک نہیں ہم سب قصوروار ہیں کیونکہ ہمارے پاس بچوں کی تربیت کے لیے وقت نہیں رہا اور ان کو ثقافت سے دور کردیا۔ جب کسی معاشرے میں ماں باپ سے بچوں کا تعلق کم ہو جاتا ہے تو بچوں میں بڑے چھوٹے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اورمعاشرے میں کرپشن اور بداخلاقی کا دور شروع ہوجا تا ہے جیسے اس وقت ہے۔ ہم نے انگریز سے اسکے کام کرنے کا انداز لینے کے بجائے اسکا رہن سہن ہی لیا۔
آپکا ماحول، سیاحت اور معاشرتی اور معاشی برتاؤ سب کچھ کلچر کا حصہ ہے،سوات جب ایک ریاست کا درجہ رکھتا تھاتو باقاعدہ سیاحت کے کچھ واضع اصول تھے جنکا سختی سے نفاذ تھا،اب ہم اتنے ترقی یافتہ ہوگئے کہ جس شاخ پر بیٹھتے ہیں اسی شاخ کو کاٹتے ہیں،ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم ترقی کا کیا مطلب لیتے ہیں کیونکہ ہم مادی ترقی کی تگ ودومیں نہ صرف اپنے مسکن کوبلکہ اپنے سیارے کو بھی تباہ کررہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب تک آپ اپنی روایات میں ثقافتی بصیرت کو نہیں لائیں گے،اپنی زندگی کو منظم نہیں کریں گے تو آ پ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتے رہیں گے۔ بے شک درخت لگانا کلچر کا حصہ ہے لیکن اس کے علاوہ بہت سے ایسے کام ہیں جو کلچر کا حصہ ہیں جن کو ہم کرنا نہیں چاہ رہے،کیونکہ ہمیں کھلی فضا میں سانس لینے کی عادت نہیں ہے۔ جب ہم اپنے کلچر سے دور ہوئے تو ہم اپنے ماحول سے بھی دور ہوگئے، اسکی بڑی وجہ ہماری تربیت کے انداز میں تبدیلیاں ہیں۔ ہم مسلسل درخت کا ٹ رہے کیونکہ اب درخت کی ا ہمیت ہماری پرورش کا حصہ نہیں، اب ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ پھول نہ توڑوپھول کو بھی تکلیف ہو تی ہے۔ اب انسان کی قدر نہیں تو ماحول کی کیا قدر ہو گی،یہ سب باتیں تربیت کا حصہ تھیں جو اب نہیں ہے۔ حضورؐ فرماتے ہیں کہ دریا کا پانی بھی ضائع نہ کرو جب کہ دریا کا پانی تو بہہ رہا ہے یعنی بہتے دریا کے پانی کو بھی سختی سے ضائع کرنے سے منع کیا گیا ہے مگرہمیں کسی چیز کا احساس نہیں رہا۔
پوسٹ کوود اور جدید تہذیب بھی یہی بتاتی ہے کہ زندگی گزارنے کے جو ثقافتی اصول تھے وہ ہی بہترین ہیں،اب کوئی وجہ نہیں کہ ہم واپس اپنی ثقافت اور روایات کی طرف نہ جائیں۔ احترام مرد کا بھی، عورت، بچوں اور درختوں کا بھی ضروری ہے۔
سابقہ ایگزیکٹیوڈائریکٹرلوک ورثہ طلحہ علی کشواہاکا خصوصی انٹرویو
آپکے خیال میں بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کے ہماری ثقافتی زندگی پرکیااثرات مرتب ہوئے؟
طلحہ علی،ٹیکنالوجی جب تک آپ کے قابومیں ہے بہت اچھی چیز ہے، اس کی مثال ایک سرکش گھوڑے کی سی ہے جب تک آپ کے قابو میں ہے تو فائدہ دیتا ہے اور جب قابو سے باہر ہوجا ئے تو نقصان، ایسا ہی ٹیکنالوجی کے ساتھ بھی ہے اس کے فوائد بھی ہیں لیکن نقصانات بھی بہت ہیں علاوہ ازیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں سوچ وچار کا یا ریسرچ کا کام نہیں کر سکتا کیونکہ ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی کے طریقہ کا ر کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے آج ہم سوشل میڈیا کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہم ایک لحمہ بھی اس سے الگ نہیں رہ سکتے،ٹیکنالوجی کا عقلمندی سے استعمال بہت ضروری ہے اگر ہم اس ٹیکنالوجی کوپبلک ٹرانسپوٹ نظام کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہوجاتے جن میں ٹریفک جام، ماحولیاتی آلودگی، بڑھتا ہوادرجہ حرارت، سڑکوں پر رش اور تشدد وغیرہ شامل ہے،اگر ہم پبلک ٹرانسپوٹ کا نیٹ ورک بہتر کر لیں تو ہم آدھی آلودگی تو ویسے ہی ختم کردیں گے،جس طریقے سے ہم ٹیکنالوجی کو استعمال کررہے ہیں اس کے نقصانات زیادہ ہیں۔
انفومیشن ٹیکنالوجی آج آپ کے گھروں کے اندر گھس چکی ہے،سب کچھ ہمارے بچوں کی پہنچ میں ہے اور ہمیں نہیں پتا کہ ہمارے بچوں کو کس طر ح کی انفومیشن دی جا رہی ہے۔یا وہ کس طرح کی معلومات انٹرنیٹ سے لی رہے ہیں،اس وقت جب آپ معلومات تک رسائی پر کنٹرول نہیں کر سکتے،جو عالمی بحران ہیں ان کی آپکے بچے تک رسائی ہے ایسے حالات میں اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کی جڑیں مضبوط کریں،اسکی اچھی تربیت کریں،اسکو پتا ہو وہ کون ہے، اسکی مذہبی اور ثقافتی اقدار کیا ہیں اور کیا کہتی ہیں تا کہ جو بھی انٹرنیٹ پر خیال بیچ رہا ہے وہ اس کو ہی نہ خرید لے،اس حوالے سے کلچر کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے،اس لئے ہمارے بچوں کا اپنی اقدار اور ثقافت سے روشناس رہنا ضروری ہے۔ثقافت کے علاوہ اب آپ کے پاس کوئی اور دفاع رہاہی نہیں ہے۔ یہ جو انفومیشن کی جنگ ہم لڑرہے ہیں یہ کتنی خطرناک ہے اس کا ابھی ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے۔آج کا دور پرو پگینڈہ کا دور ہے اور دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ماہر بہت کام کر چکے ہیں خاص طور پربرسلز کہتے ہیں تعلیم ایک پروپگینڈہ کا آلہ ہے اگر آپ تعلیم کو کنٹرول کرکے اپنے طریقے سے تعلیم دیتے رہیں گے تو آپ زہن کو قابو کریں گے اور یہ بہت ہی خطرناک بات ہے وہ کہتے ہیں اس دور میں دو ہی پروپگینڈہ ذرائع ہیں ایک میڈیا اور دوسرا تعلیم،اگر کوئی ملک ان دونوں پر کنٹرول کر لیتا ہے تو سمجھ لیں کہ اس پر قابو پا لیا پھر اس کے لیے کسی پولیس یا فوج کی ضرورت نہیں نہ ہی کسی ہتھیار کی ضرورت ہے۔
جب ہم اپنے کلچر سے دور ہوئے تواپنے ماحول سے بھی دور ہوگئے اسکی بڑی وجہ ہماری تربیت کے انداز میں تبدیلیاں ہیں
کلچر پالیسی کتنی ضروری ہے اور اب تک کی ہماری کلچر پالیسی کو کیسے دیکھتے ہیں؟
طلحہ علی،کسی بھی ملک کی پالیسی میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے لیکن ہمارے ہاں کلچر پالیسی نظر نہیں آتی اور اگر ہے تو کہیں بھی کلچر پالیسی پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا،مثلاً ہم گھروں کی تعمیرات اور ڈیزائن پربات کرتے ہیں کیا کبھی ہم لوگوں نے گھر کو بنواتے وقت یہاں کے موسموں کو مدنظر رکھایا ہم اپنے موسموں کے مطابق ڈیزائن کرواتے ہیں،یقیناًکم ہی ایسا ہوتا ہے،آپ دنیا جہاں کی تعمیرات کے ڈیزائن یہاں پر لاکر تجربہ کرتے ہیں یہ سوچے بغیرکہ وہ ہمارے موسمیاتی تقاضوں کے مطابق ہیں یا نہیں،ایسا ہی ہمارے باقی معاملات میں بھی ہے، اگر چہ اچھی کلچر پالیسی بنانے کے لیے کوششیں ہوئی ہیں لیکن بہت سے ایسے پہلو ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کلچر ہماری معاشی، سیاسی، سفارتی، اور سیکیورٹی پالیسی کا ایک اہم جز ہے جس کوہم معاشرے سے الگ نہیں کر سکتے۔