ظفر ملک
فارم 47کی حکومت آتے ہی ملک بھر کے کسانوں پر پہلا بھاری وار کر دیا،اربوں روپے کی گندم نہ خرید کر کسانوں کو در بدر کر دیا گیا۔
احتجاج پر پولیس وردی کی بھی دھمکی دیدی گئی،تاہم سوشل میڈیا پر پریشر آنے کے بعد حکومتی ایوانوں سے سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو گندم بحران کا زمہ دار ٹھہرانے کے لیے نیشنل میڈیا پر پروگرام کروائے جانے لگے ہیں۔
تفصیل کے مطابق ایک گندم کی فصل تیار ہونے میں 7سے 8 ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے جو کو غریب کسان پیٹر کے ذریعہ سیراب کرتا ہے اور بالترتیب 7سے 8پانی دیکر فصل کو پکایا جاتا ہے۔
یوں 10لیٹر سے زاید ڈیزل کا خرچہ صرف ایک پانی کے لیے فی ایکڑ تک خرچہ آتا ہے اور اس سے قبل زمین تیاری کے لیے ٹریکٹر کا فی گھنٹہ چار ہزار پانچ سو میں چلایا جاتا ہے جو کہ ایک ایکڑ میں پانچ گھنٹے تک وقت لگتا ہے۔
علاؤہ ازیں ایک گٹو ڈی اے پی کھاد جو کہ چودہ ہزار سے زاید کی ملتی ہے اور دو بار سونا یوریا کھاد بالترتیب ڈالی جاتی ہے پھر محنت کش کا وقت،سردی کی راتیں اور دن پھر فصل کٹائی اور تھریشر تک فی ایکڑ پیداوار تیس سے 35 من ایک کسان گندم حاصل کرتا تھا۔
جس کی مارکیٹ قیمت 140000کے قریب ملتی تھی جبکہ اس پر خرچہ90ہزار روپے سے زاید فی ایکڑ خرچہ کٹائی اور تھریشر و لیبر اور کسان کی سات ماہ کی محنت علاوہ تھی۔
اچ جبکہ نگران حکومت نے 35لاکھ ٹن گندم یوکرائن سے 2700 روپے من منگوا کر پاکستان میں 4100روپے من فروخت کی اور تقریباً 85ارب روپے منافع کمایا اور غریب کسانوں کی گندم 4100 روپے من لینے سے انکار کر دیا جس اور حکومت کا پریشر ہے کہ عام منڈی اڑھتی،کو 2700 روپے من فروخت کی جائے اور حکومت نے ڈیزل۔
کھاد و دیگر میں کوئی سہولت فراہم نہ کی جس پر خرچہ 90ہزار پلس ہے اور قیمت 85000 کے لگ مل رہی ہے،اس پر کسان سراپا احتجاج تھے اور دو چار ایکڑ سے لیکر پچاس ایکڑ زمین کے مالک کو لاکھوں روپے ایک فصل میں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے