اسلام اباد: معاشرہ کیا ہے ؟ میری دانست میں معاشرہ بہت سے افراد کا ایک ایسا کنبہ ہے جو ایک اجتماعی شعور اور روایات کو لے کر چلتا ہے ، ہر ملک ، خطہ اور علاقے کی معاشرتی روایات تہذیب و تمدن الگ الگ ہوتے ہیں ۔
ہماری مشرقی اخلاقیات اور روایات دنیا کے دیگر ممالک سے الگ ہیں ۔ ہر معاشرے کے کچھ اچھے اور کچھ منفی پہلو ہوا کرتے ہیں تاہم ہمارے معاشرے کی خصوصیات میں باہمی احترام ، وضع داری اور رکھ رکھائو بنیادی اہمیت رکھتے ہیں ۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی اور جدت کی وجہ سے دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی ہے ، فاصلے کم ہونے کی وجہ سے بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔ ہم اپنی روایات اور رکھ رکھائو سے دور ہو رہے ہیں ۔ عدم برداشت کا عنصر غالب آرہا ہے ۔ میں یہاں اپنے معاشرے میں موجود ٹرانس جینڈرز کو پبلک ٹرانسپورٹ میں درپیش صرف ایک مسئلے کی بات کروں گی ۔ یہ وہ طبقہ ہے جسے ابھی تک ہمارے معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو دیگر طبقات کو حاصل ہے۔
اس معاشرے کے تلخ رویوں نے اتنا مجبور کر دیا ہے کہ وہ صرف اس معاشرے میں جینا چاہتے ہیں حقوق کیا ہوتے ہیں وہ تو یہ سب بھول ہی گئے ہیں۔
ایک عام انسان کو روزمرہ سفر کے دوران اتنے مسائل درپیش ہوتے ہیں تو سوچیں کہ خواجہ سراوں کو عام ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران کتنی اذیت اور مشکلات جھیلنی پڑتی ہوگی۔
اس حوالے سے ہم نے نایاب علی جو کہ ٹرانس جینڈر ایکٹویسٹ اور اسلام آباد سے پہلی خواجہ سراء ہیں جس نے قومی اسمبلی کے لئے ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا۔ نایاب علی کا کہنا تھا کہ سفر ایسی چیز ہے کہ آپ کو روزانہ گھر سے نکلنا ہی پڑتا ہے۔ آپ ایک جگہ پر قید نہیں رہ سکتے۔
اپنے روزمرہ کے کاموں کے لئے آپ کو باہر جانا ہی پڑتا ہے۔ آپ کے گھر سے نکلنے اور گھر واپسی تک ایسی نظریں آپ کا تعاقب کرتی ہیں، آپ کو ہراساں کرتی ہیں۔ ہراسمینٹ جو کہ راستے میں پڑی ہوتی ہے۔اس لئے ہمیں ذہنی طور پر گھر سے تیار ہو کر نکلنا پڑتا ہے کہ آج لوگ ہمیں راستے میں ہراساں کریں گے۔ لوگ راستے میں ہم پر آوازیں کسیں گے، ہمیں روکیں گے، اوچھی نظروں سے دیکھیں گے، انہوں نے کہا کہ گاڑی میں، بس میں ساری نشستیں مردوں اور خواتین کے لئے ہوتی ہیں۔ جب خواجہ سراء پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں تو ان کو نہ مردوں والی طرف نشست ملتی ہے اور نہ عورتوں والی نشستیں ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ کیب سروس میں جب ہم کوئی گاڑی بک کرواتی ہیں اور کیب والے کو علم ہو جائے کہ ہم خواجہ سراء ہیں یا تو وہ زیادہ پیسے مانگتے ہیں۔
بعض دفعہ ہماری شناخت معلوم ہونے پر وہ رائیڈ کینسل کر دیتے ہیں اور اگر گاڑی آ بھی جائے تو ہمیں دیکھ کر وہ معذرت کر لیتے ہیں۔ نایاب علی کا کہنا تھا کہ ہم اتنے غیر محفوظ ہیں کہ جب ہم ٹیکسی کراتے ہیں تو ڈرائیور آگے کا شیشہ اس طرح کر دیتا ہے جو ہم پر فوکس ہوتا ہے۔ جو کہ ایک بلکل گری ہوئی حرکت ہے اور اگر آپ کی ذاتی گاڑی ہو جیسا کہ میں اپنی ذاتی سکوٹی استعمال کرتی ہوں تو آپ ان کے لئے ایک فن کی طرح سڑک پر اترتے ہیں روڈ پر سب لوگوں کی نظریں صرف آپ کی طرف ہی ہو جاتی ہیں۔
نایاب علی کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ گاڑی روزانہ کی بنیاد پر آپ افورڈ نہیں کر سکتے، ان کے کرائے بہت زیادہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین اور خواجہ سرائوں کی موبلائزیشن کو گھروں تک محدود کر دیا جاتا ہے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سے جب ہماری ٹرانس جینڈر کے سفری مسائل کے حوالے سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے ہم نے آگاہی کے پروگرام شروع کئے ہیں جن کا آغاز مختلف یونیورسٹیز اور کالجز سے کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی آگاہی دی جا رہی ہے۔ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ بالکل جب خواجہ سراء مختلف ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں تو ان کو ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض دفعہ پبلک ٹرانسپورٹ میں ان کو سوار نہیں کیا جاتا۔
ہمارے پاس اس طرح کی مختلف شکایات آتی رہی ہیں جن میں سے سفر کے دوران ہراساں کرنا بھی شامل ہے، ہم نے ان پر کارروائی بھی کی ہے لیکن اس مسئلے کا حل اتنا آسان نہیں ہے جب تک خواجہ سرائوں کو ان کے حقوق نہیں ملتے، ان کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے تحفظ سینٹر بھی بنائے ہوئے ہیں اور پنجاب پولیس نے خواجہ سرائوں کو کچھ عہدوں پر بھی فائز کیا ہے تاکہ ان کے مسائل کو اچھی طرح دیکھا جائے۔
پنجاب پولیس میں بھرتی ہونے والی وی ایس او لہر مرزا نے اس حوالے سے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ میں خود پہلی ٹرانس جینڈر وی ایس او راولپنڈی ہوں۔ خواجہ سرائوں کے حوالے سے آنے والے کیسز کی تعداد کافی ہے جن میں سفر کے دوران خواجہ سرائوں کو ہراساں کیا جاتا ہے جب میں اس شعبہ میں نہیں تھی تو اس وقت مجھے بھی اس طرح کی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لہر مرزا کا کہنا تھا کہ میں پہلی وی ایس او ٹرانس جینڈر ہوں جب میں اس عہدے پر آئی تو میں نے خواجہ سرائوں کے لئے بہت کام کیا۔
اس کے علاوہ راولپنڈی پولیس اور آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کافی فوکس رکھا بالخصوص ٹرانس جینڈر پر انہوں نے بہت سا کام کیا اور جب سے تحفظ سینٹر بنے ہیں، ہم نے خواجہ سرائوں کے حقوق کی آگاہی پر کام شروع کیا جس کی وجہ اب پبلک ٹرانسپورٹ، سکول اور کالجز میں بھی خواجہ سرائوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا ہے۔
ابھی اس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اس حوالے سے آہستہ آہستہ کام شروع ہو چکا ہے اور لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی آنا شروع ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس بہت سے خواجہ سرائوں کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جا چکا ہے جس کے مطابق بہت سے خواجہ سراء پڑھے لکھے بھی ہیں اور وہ بہت اچھے عہدوں پر فائز بھی ہیں اور خواجہ سرائوں کے حقوق کے لئے کام بھی کر رہے ہیں۔
لہر مرزا کا کہنا تھا کہ حکومت اگر ہمارے بنیادی حقوق دلوانے کی طرف متوجہ ہو تو ہماری بہت سی مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔ خواجہ سرائوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک برتا جانا چاہیے جیسا کہ عام انسانوں کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ مختلف اداروں میں ان کے لئے ملازمتوں کا کوٹہ رکھا جانا چاہیے خواجہ سراء اپنے لیے تو کام کر رہا ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے ساتھ ساتھ دیگر خواجہ سرائوں کے لئے بھی کام کرے۔ہیومن رائٹ ایکٹویسٹ جیا جگی کا کہنا تھا کہ کوئی بھی خواجہ سراء ہو یا خاتون ہو ان کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی ایک طویل فہرست ہے۔ سب سے پہلے خواجہ سراء اپنے گھروں سے نکل ہی نہیں پاتیں۔ ایک تو پبلک ٹرانسپورٹ ہر علاقے میں میسر نہیں ہوتی اور اگر مل جائے تو اس میں ٹرانس جینڈر کو ہراساں کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے، ان کو سیٹ نہیں دی جاتی، بعض دفعہ ان کو پبلک ٹرانسپورٹ سے اتار دیا جاتا ہے۔
خواجہ سراء اس کئے بھی آگے نہیں نکل سکتیں کیونکہ وہ تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں، وہ روزگار کے لئے باہر نہیں نکل پاتیں جس کی سب سے بڑی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ ہی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ گھروں تک ہی محدود ہو گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کا کام ہے کہ وہ عورتوں اور خواجہ سرائوں کے تحفظ کا خیال رکھیں اور ان کو محفوظ مقام مہیا کیا جائے تاکہ وہ بآسانی سفر کر سکیں۔ آپ کو ہمیشہ یہ ڈر لگتا ہے کہ آپ کو ہراساں کیا جائے گا۔
آپ جب سفر کرتے ہو تو آپ کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ آپ نے اس مقررہ وقت میں سفر کرنا یے، روشنی کے اوقات میں سفر کرنا ہے، اندھیرا ہونے سے پہلے گھر پہنچنا ہے، میں رات کے وقت سفر نہیں کر سکتی اور اسی وجہ سے میرے بہت سے کام نہیں ہو سکتے ہیں جن کو کرنے کے لئے میرے اندر صلاحیت ہے اور میں نہیں کر پاتی۔