صوابی میں لڑکا, لڑکی مبینہ طور پرغیرت کے نام پر قتل

عمران ٹکر

0

پشاور:صوابی پولیس سٹیشن ٹوپی کے حدود میں غیرت کے نام پر دو افراد کو فائرنگ کر کےقتل کردیا گئا۔
24 سالہ بھائ (م) نے اپنی 20 سالہ سگی بہن (خ) اور اسکے 18 سالہ دوست (ع) کو گھر کے اندر ایک ساتھ پاکر فائرنگ کرکے قتل کردیا ہے۔ پولیس کو خبر ہوتے ہی تھانہ ٹوپی پولیس نے لاشوں کو اپنی تحویل میں لیکر پوسٹ مارٹم کےلئے مقامی ہسپتال منتقل کردیا مقتولہ کے والد (ج) نے اپنی مدعیت میں اپنے ملزم بیٹے (م) کےخلاف دوہرے قتل کا مقدمہ درج کردیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق ملزم کو پکڑنے کےلئے چھاپے مارنا شروع کردئے اور کچھ ہی دیر میں 24 سالہ ملزم (م) کو گرفتار کرلیا۔ جبکہ مزید تفتیش بھی شروع کردی گئ۔
پچھلے چند مھینوں میں ضلع صوابی سے غیرت کے نام قتل کا یہ دوسرا واقعہ ہے حالیہ واقعہ سے پہلے صوابی یارحسین کے نواحی گاؤں سرد چینہ میں والدین نے مبینہ طور پر جوان سال بیٹی کو زہریلی دوا پلا کر قتل کر دیا تھا۔
مقامی پولیس کے مطابق والدین نے اس واقعے کو خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی تاہم پولیس نے کارروائی کرکے والدین اور مقتولہ خاتون کے مبینہ دوست کو بھی حراست میں لے لیا۔
جبکہ پچھلے ہفتہ پشاور میں غیرت کے نام پر ایک شخص نے اپنے سابقہ بیوی پر تیزاب پھینکا جس سے اسکے بدن کے مختلف حصے جھلس گئے چونکہ خاتون نے پہلے شوہر سے طلاق لیکر دوسری شادی کی ھوئ ہے تھی جبکہ سابقہ شوہر نے غیرت میں آکر اسکے بدن پر تیزاب پھینکنے کا گھناؤنا عمل کیا۔
ھیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں ملک میں 226 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے غیرت کے نام پر قتل اور کارو کاری کے واقعات کے بارے میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے 22-2018 کے درمیان چار سالوں میں تقریباً 1,961 واقعات عوامی سطح پر رپورٹ ہوئے جن میں 2,537 افراد شکار ہوئے۔ جن میں سے 858 مرد تھے، جبکہ اس تعداد سے دوگنا 1679 خواتین تھیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 18 سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل ہیں۔

یوں غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق بہت سارے غیرت کے نام پر قتل کے کیسز یا تو رپورٹ نہیں ہوتے اور یا ان کو خودکشی وغیرہ سب بنا کر رپورٹ کرتے ہیں۔
سید عثمان ایڈوکیٹ پشاور ہائی کورٹ نے غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا غیرت کے نام پر بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ ان کارروائیوں کی جڑیں ثقافتی روایات میں ہیں جو قانون کے تحت انصاف اور مساوات کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
سید عثمان ایڈوکیٹ نے مزید بتایا کہ قانونی نقطہ نظر سے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو قانون کی پوری طاقت کے ساتھ حل کرنا بہت ضروری ہے۔ مجرموں کے خلاف نرمی کے بغیر مقدمہ چلایا جانا چاہیے، اور قانونی دفاع میں ثقافتی جواز کے لیے کوئی رواداری نہیں ہونی چاہیے

Leave A Reply

Your email address will not be published.