پشتو موسیقی کی پہچان ’رباب‘کے ُسرخاموش کیوں!
پاپ میوزک کے بڑھتے رجحان نے ’رباب‘ کی مقبولیت پرگہرااثرڈالا
ویب ڈیسک
دور جدید کی اہمیت اپنی جگہ مگراسکے منفی اثرات نے بھی ہماری تہذیب و تمدن پر گہرا اثر ڈالا ہے جس سے ہماری موسیقی بھی نہ بچ سکی ہے۔ پاپ موسیقی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور نوجوانوں میں اس کی مقبولیت کی وجہ سے ’رباب‘ کا استعمال وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جارہا ہے۔کوہاٹ کے ظفر علی ایک ماہر رباب نواز ہیں جنہوں نے اپنی لگن سے پشتو موسیقی کی اس روایت کو سینے سے لگا رکھا ہے مگر وہ اس بات پر پریشان نظر آتے ہیں کہ پاپ موسیقی کی وجہ سے پشتو موسیقی کے شہنشاہ ‘رباب’ کے ُسر ماند پڑ رہے ہیں۔
رباب پشتو موسیقی کی پہچان، روایت اور مشکل ترین فن ہے۔ پشتو زبان کے نامور شاعروں اور ادیبوں کی جانب سے کتابوں میں اس آلہ موسیقی کا ذکر کثرت سے کیا گیا ہے جبکہ اسے ملنگوں کی پسند بھی کہا جاتا ہے۔ بیشتر محققین کے مطابق رباب عربی زبان کا لفظ ہے اور اس ساز کی ابتداء عرب ممالک سے ہوئی جسے بعد میں پشتونوں نے اپنایا۔
رباب نوازظفرعلی کے مطابق اس میں تاروں کی بڑی تعداد ہونے کی وجہ سے اسے سیکھنا ایک نہایت ہی مشکل فن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے بچپن سے ہی رباب بجانا اور اسے سننا اچھا لگتا تھا، یہی دلچسپی تھی جس کی وجہ سے بیٹ میں تار ڈال کر رباب بجانے کی کوشش کرتا اور پھر استادوں کی تربیت اور مسلسل محنت کے بعد رباب بجانے لگارباب کو بجانے سے قبل اسے سر میں لانا بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ بغیر ُسر کے یہ نہیں بجتا اور جب اس کو اچھے طریقے سے سُر میں لایا جاتا ہے تو پھر اس سے سریلی اور تیز آواز نکلتی ہے جس سے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
حکومتی سطح پررباب نوازوں کی پذیرائی نہ کرنا بھی اس فن کے زوال کی بڑی وجہ ہے
نوجوان رباب نواز محمد بلال کہتے ہیں کہ رباب میں چھوٹے تار ہوتے ہیں جسے ‘بچے’ کہتے ہیں انہیں بڑے تاروں سے جوڑا جاتا ہے۔ عام طور پر محافل میں دیکھا گیا ہے کہ جب بھی رباب نواز محفل میں رباب بجانے آتے ہیں تو پہلے وہ ان تاروں کو ٹھیک سے جوڑتے ہیں اور اسے ُسر میں لاتے ہیں۔
پشتون معاشرے کی علامت حجرے میں رباب کی محفلیں سجنا عام سی بات تھی۔ کام کاج کے بعد شام کو اکثرلوگ تفریحی تقاریب کا اہتمام کرتے اور حجروں میں کسی شوقیہ رباب نواز کو پکڑتے، اس سے فرمائش کرتے اور موسیقی کی محفل سجا لیتے۔ اسی طرح شادی بیاہ کے موقعوں پردیہی علاقوں میں ہفتوں پر محیط موسیقی کے پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا جبکہ شہروں میں دو سے تین دن یا بارات سے ایک دن پہلے رات کو موسیقی کی محفل سجتی جس میں دور دراز سے لوگ شریک ہوتے۔
پشتو شاعرچنگریزکا کہنا ہے کہ رباب کی محفل کے اہتمام کا سنتے ہی علاقہ مکینوں سمیت دورپار کے رشتہ دار، دوست اور آس پاس کے علاقوں کے لوگ جمع ہوجاتے تھے اورپھر محلے کے گھروں سے چارپائیاں منگوا کر کھلے میدان میں لگائی جاتیں اور ماہررباب نوازوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں، ان کے بقول ان محافل میں بچے، نوجوان اور بزرگ سب شریک ہوتے اور رات دیر تک موسیقی کی ان محفلوں سے لطف اندوز ہوتے۔
پشتو زبان کے نامور شاعروں اور ادیبوں کی جانب سے کتابوں میں اس آلہ موسیقی کا ذکر کثرت سے کیا گیا ہے
پشتون معاشرے میں رباب کو منفرد حیثیت اس لحاظ سے بھی حاصل ہے کہ پشتونوں کے یہاں شائد یہ موسیقی کی واحد قسم ہے جسے وہ برا نہیں سمجھتے۔ پشتون نہ رباب کو برا سمجھتے ہیں اور نہ رباب بجانے والوں کو بلکہ وہ رباب نوازوں کی بڑی قدر کرتے ہیں اور انہیں ‘استاد’ کے نام سے پکارتے ہیں۔
پروفیسر سید غواث کی رائے ہے کہ اگر چہ رباب کی محفلوں کی روایت اب کم ہوتی جارہی ہے لیکن محفلیں منعقد ہو جائیں تو لوگ اسے برا نہیں سمجھیں گے اور شوق سے اس میں شریک بھی ہوں گے۔تاہم رباب کے شوقین غلام محمد کا کہنا ہے کہ رباب کے استعمال میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی ایک وجہ پشتونوں کی اپنی ثقافت سے لاعلمی ہے تودوسری پاپ موسیقی کی یلغارہے جس نے نوجوانوں میں انتہائی مقبولیت حاصل کر لی ہے،وہ کہتے ہیں کہ پاپ موسیقی جدید دور سے ہم آہنگ ہے اور لوگ اب اسے زیادہ پسند کرتے ہیں جبکہ پشتون رباب جیسی اہم روایت اور اس کی اہمیت سے لاعلم ہیں جس کی وجہ سے شادی بیاہ کی تقریبات اور حجروں میں اس کے استعمال میں کمی آئی ہے۔
رباب کی پشتو موسیقی میں اہمیت کے باوجود حکومت کی طرف سے اس فن اور اس کے ماہرین کی پذیرائی نہ کرنا بھی اس کے زوال کی اہم وجہ ہے۔ یہ بات کسی المیہ سے کم نہیں کہ ایک ایسے دور میں جب نوجوان موسیقی کے میدان میں آکرنت نئے طریقوں کے ذریعے اس فن میں نام کما رہے ہیں وہیں رباب جیسا بے مثال فن اور اس سے وابستہ ماہر فنکاروں کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔
ظفرعلی کے مطابق اس مشکل فن کو سیکھنے کیلئے باقاعدہ تربیت گاہیں موجود ہیں اور نہ اس فن سے وابستہ ماہرین کے معاوضے کا خیال رکھا جاتا ہے
رباب نواز ظفر علی کے نزدیک رباب کے ماند پڑتے سروں کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ حکومت اورمحکمہ ثقافت اس ورثے کو بچانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کرنے کو تیار نہیں،اس مشکل فن کو سیکھنے کیلئے باقاعدہ تربیت گاہیں موجود ہیں اور نہ اس فن سے وابستہ ماہرین کے معاوضے کا خیال رکھا جاتا ہے،اس کے برعکس نئے دور کے غیر تربیت یافتہ فن کاروں کو اچھا معاوضہ اور مراعات دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے لوگ اس طرف نہیں آتے اور شور و غوغا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ حکومت اور اداروں کی جانب سے اہل فن کوکھڈے لائن لگا کر غیرتربیت یافتہ فنکاروں کو آگے لانا بھی بڑا المیہ ہے۔
رباب نواز بلال بھی ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رباب کا تعلق خوشی سے ہے، جب خوشی کا موقع آئے گا تو اس کی مانگ خودبخود بڑھے گی مگر دور جدید کی ریڈی میڈ موسیقی نے اس فن پر منفی اثر ڈالا ہے کیوں کہ نئے دور کے اپنے تقاضے ہیں،اب موسیقی کے انداز بھی بدل گئے ہیں، موسیقی کے جدید آلات اور طریقے مارکیٹ میں آنے سے لوگوں کے ذوق پر بھی اثر پڑا ہے، لوگ اب تیز موسیقی پسند کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حکومت اور محکمے اس روایتی فن کے فروغ کیلئے بھی کوئی ایسے اقدامات نہیں اٹھا رہے جو ان منفی اثرات کو کم کر سکیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ رباب پشتو موسیقی کی پہچان اور روایت ہے۔ روایات سے لوگوں کا گہرا جذباتی تعلق ہوتا ہے اوروہ اسے آسانی کے ساتھ چھوڑ نہیں پاتے،اگر لوگ نئی چیزوں کی طرف راغب بھی ہو جائیں تو پھربھی ان کے دل میں روایات کی قدر موجود رہتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت رباب کی پشتو موسیقی میں اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹی وی چینلوں پر آگہی پروگراموں، تفریحی تقاریب و مجالس کا اہتمام کرکے عوام میں اس کی اہمیت اجاگر کرے۔ اس فن کے ماہرین کی قدر کریں اور ان کو اچھا معاوضہ اور مراعات دینے کا بندوبست کرے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومت اس روایت کو زندہ رکھنے کیلئے باقاعدہ سکول اور تربیتی مراکز بنائے اورنئے دور کے تقاضوں کے ساتھ اسے ہم آہنگ کرنے کیلئے ماہرین کی آراء کی روشنی میں ایک جامع حکمت عملی بنائے تاکہ لوگ رباب کی طرف آئیں اور اس سے لطف اندوز ہوں۔