لندن: پاکستان کے عرب ممالک سے تعلقات اس کی خراجہُ پالیسی کے لیئے کہیں پہلو سے اہمیت رکھتے ہیں ۔گو عرب ممالک سےمشترکہ مذہبی وابستگی کا ہونا بہت ہی اہم ہے لیکن کیا یہ وابستگی تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی سیاسی حالات کے پیش نظر خارجہ پالیسی کی مثبت تشکیل کے لیئے کافی ہے ؟
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ : کیا پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو کسی حد تک آزادی اور خود اعتمادی کے ساتھ ترتیب دے کر عمل میں لا سکتا ہے ؟
اس کا واضح جواب ہے ‘نہیں’
پاکستاُن متعدد اندرونی اور بیرونی دباؤ کا شکار ہے- ملک کی خستہ حال معیشت، عوام کے لیئے بڑھتی ہوئی قمیتں اور متواتر قومی قرضوں میں آئے دن اضافہ ، سیاسی ابتری اور دہشت گردی یہ تمام وہ وجوات ہیں جو پاکستان کے لیئے آزاد خارجی پالیسی اختیار کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ہیں ۔
ناقص ملکی معیشت اور ملک پر بڑھتے ہوئے قرضوُ کا بوجھ ، پاکستان کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر رہا ہے اور باہر سے امداد سخت ترین شرائط کے بغیر نہیں آتی مثلا جیسے کے ایم ایف کا معاملہ ہے۔
حال ہی میں سعودی عرب نے پاکستان کے مرکزی بینک میں 2 بلین ڈالر کی رقم جمع کرائی تھی جو ملک کو دیوالیہ سے بچانے کے لیئے ناگیز تھی لیکن ہمیں یہ تصور بھی نہیں کرنا چاہئے کہ وہ غیر مشروط تھی ۔ جو دیتا ہے وہ نچاتا بھی ہے-
پاکستان کو اپنی معاشی بقا کے لیے عرب ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے ۔ عرب لیگ کی ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اس کے وسیع تجارتی تعلقات ہیں، مثلا سعودی عرب امریکہ کے بعد پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
پاکستان کی برآمدات کے لیے عرب ممالک ایک منافع بخش مارکیٹ ہے جبکہ لاکھوں پاکستانی مزدور اپنے ملک میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ان ممالک میں روزکار کے لیئے مجبور ہیں – اس کے ساتھ ساتھ دبئی جیسی جگہیں ہمارے امیر طبقہ کے لیئے فراری ، عیاشی ، اور سکون کی اڈے ہیں – وہ کیسے گوارہ کر سکتے ہیں ان میں ملک کی خراجی پالیسی کی وجہ سے تبدیلی آئے –
پاکستان کی او -آئی -سی کی ممبرشپ ، اس کی خارجہ پالیسی کا ایک اور اہم پہلو ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا –
او -آئی -سی کا قیام 1969 میں مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ پر آتش زنی کے حملے کے بعد کیا گیا تھا۔یہ اقوام متحدہ کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے بڑا بین الاقوامی فورم ہے جس کی رکنیت 30 سے بڑھ کر 57 ہو گئی ہے،اور اس میں تقریباً تمام قابل ذکر مسلم ریاستیں شامل ہیں۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے او -آئی -سی کا دوسرا سب سے بڑا رکن اور ایٹمی صلاحیت رکھنے والا واحد اسلامی ملک ہے۔
تاہم، او -آئی -سی میں پاکستان کا سفر نشیب و فراز سے خالی نہیں رہا۔ مثلاً جب یو -اے – ای نے ہندوستان کے وزرائے خارجہ کو او -آئی -سی سربراہی اجلاس میں شمولیت کی دعوت دی تو پاکستان نے مسئلہ کشمیر اور بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے دعوت پر اعتراض کیا۔ لیکن او -آئی -سی کی جانب سے بھارت کے اقدام کی مذمت کے باوجود یو -اے – ای نے اپنا دعوت نامہ واپس نہیں لیا۔ یہ واقعہ او-آئی – سی کو درپیش مشکلات کا نشاندہی کرتا ہے ، کیونکہ رکن ممالک اپنے قومی مفاد کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اور اس سے قطحی پرواہ کیئے بغیر کے ان کے اقدام اجتماعی عزم کے منافی ہیں یا نہیں –
او -آئی -سی کے قیام کے بعد سے مسلم مملک کے تعلقات میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں ، جس میں افغانستان پرغیر قانونی قبضہ، خلیجی جنگ، لیبیا، عراق اور شام کو ختم کرنا اور یمن میں جاری جنگی تنازعہ شامل ہیں – اور کشمیر اور فلسطیین کے آزادی اوہ خود مختاری کی جدوجہد کسی مثبت نتیجہ پر پہنچنے کے بجائے وہاں ظالمانہ تسلط کی گرفت صرف مضبوط ہی نہیں ہوگئی بلکہ اب تو کھلے عام نسل کشی کا عملُ جاری ہے –
لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود پاکستان کو او-آئی-سی کو برداشت کرنا پڑتا ہے، اور اس سے تعان کو ناگیز سمجھا جاتا ہے ، تاکہ خارجی پالیسی میں کوئی ایسی راہ نہ اختیار نہ کی جائے جو اس کا عرب ممالک سے دوری کا سبب بن جائے ۔ پہلے سے ہی اندرنی سیاسیی ابتری اور کمزور معاشی حالات کیی وجہ سے عرب ممالک میں پاکستان کی سالمیت اور وقار کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے -جبکہ آئی-او-سی کی رکن ممالک پر اس کا انحصار مسلسل بڑھ رہا ہے۔
پاکستان اور عرب دنیا کے تعلقات کے تناظر میں مسئلہ فلسطین مرکزی حثیت رکھتا ہے۔ بہت سے پہلوں سے، پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیئے بہت ہی بڑا جیلنج ہے-ابتدا سے ہی پاکستان نے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے اور اس کے حصول تک اسرائیل کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے ۔ تاہم، پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سعودی عرب کی غزہ سے پہلے کی کوششوں پر بھی کڑی نظر رکھے ہوئے تھا۔
غور طلب ہے کہ ترکی جیسے ممالک کے اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی سے وسیع پیمانہ پر تجارتی معاہدے ہیں۔ تاہم اندرون ملک سیاسی اور معاشی عدم استحکام نے پاکستان کی پوزیشن کو مشکل بنا دیا ہے، ملکُ میں فلسطین کی حامی لابی کو پاکستان کے رویہ میں کسی قسم کے نرم رویے کی سخت مخالف ہے اور اس کو بھی راضی رکھنا بھی ناگیز ہے اور اس کے ساتھ اپنے دو اہم اتحادیوں اور مدد گاروں یعنی امریکہ اور سعودی عرب کو بھی راضی رکھنا ہے .
نیز، ایران اور افغانستان کے فلسطین پر واضح موقف ہیں، اور وہ اس حوالے سے پاکستان پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں -اس طرح پاکستان کو اپنے ان دو اہم پڑوسیوں سے مسلہ فلسطین پر ممکنہ تصادم سے بچنے کی ضرورت ہے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت سے ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ متوقع ہے کہ وہ اس کی دی ہوئی ترکیب اور تدبیر پر عمل کرے گی اور اسٹیبلشمنٹ کسی طرح بھی موجودہ حالات میں امریکہ اور سعودیہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی ۔
یامریکی مفادات پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہت ہی اہم ہیں ، کیونکہ امریکہ نے بہت سے مسلم ممالک میں گرفت بہت مضبوط کی ہوئی ہے جس کو ڈھیلا نہیں کرنا چاہتا – اور وہ پاکستان اور دیگر جگہوں پر اپنے مفادات کے تحفظ میں کوئی نقصان نہیں چاہئے گا-
امریکہ کو پاکستان اور چین کے قریبی تعلقات اور ایران اور افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کی نئی حکومت کی خواہش اور کوشش سے پہلے سے ہی نالاں ہے۔
ان تمام حالات و وقعیات کی وجہ سے خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے اور اس پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے ۔