قدیم ٹمبورا سازجدید تقاضوں کا متقاضی

شازیہ محبوب

0

دیدہ زیب کشیدہ کاری سے مزین چادرسے سجادیکھنے میں چکورنما خیمہ ہے مگریہ ماہر کاریگری کی سوجھ بوجہ رکھنے والی آنکھ ہی سمجھ سکتی ہے کہ اس کی خوبصورتی کو چارچاند لگانے کے پیچھے کتنے محنت کشوں کا ہاتھ ہے،اس چادرپر نہا یت ہی نفاست سے مختلف رنگوں کے دھاگوں اور شیشے کے ساتھ کشیدا کاری کا گویا ایک جالا سا بنا دیا گیا ہے، دراصل ثقافتی رنگوں سے سجے خیمہ نما بیٹھک میں بیٹھے یہ لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ خیمہ کوئی معمولی اہمیت کا حا مل نہیں بلکہ ان کاریگروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے جنھوں نے پاکستان کی صدیوں پرانی ثقافت کو نہ صر ف زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ اس کو دنیا کے کونے کونے میں اجاگر کرکے وطن عزیز کا نام روشن کیا۔یہ وہ خاص لوگ ہیں جو چلتے پھرتے ثقافتی خزانے ہیں۔ اس خیمہ میں بیٹھا ہر شخص اپنے اندر ہنر کا ایک بڑا خزانہ رکھتا ہے  اور مختلف ممالک میں اپنے ملک کی نمائندگی کر چکا ہے۔

حکومتی سرپرستی ٹمبورا ساز کو ناپید ہونے سے بچا سکتی ہے

سفید لباس میں ملبوس، سر پر بلوچ پگڑی سجائے  یہ فنکار اس ملک کا قیمتی سرمایا ہیں،ہا تھ میں ٹمبوراساز پکڑے سب سے آگے بیٹھے یہ فنکار استا د  شیعان بگٹی جو اپنے فن کا مظاہر ہ کرنے کے بعد اس خوبصورت خیمہ میں آکر اپنے ساتھیوں کیساتھ بیٹھتے ہیں اور ان کے ساتھ گپ شپ کی محفل سجا تے ہیں۔ لوک ورثہ کی ٹیم نے ان کے فن اور بدلتی ہوئی موسیقی کے روجحان پر ان سے تفصیل سے بات کی۔
لوک میلہ کے دوران بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے اس روایتی خیمے میں بیٹھے یہ فنکار پچھلی تین دہائیوں سے ٹمبورا  کے فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
شیعان بگٹی نہ صرف ملک کے تمام علاقوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں بھی پاکستان کی نمائندگی کرکے اپنے فن سے ملک کا نام روشن کر چکے ہیں۔ اب تک وہ کنیڈا، جرمنی اورامریکہ سمیت کئی ملکوں میں پاکستان کی ثقافت متعارف کرواچکے ہیں۔

عالمی شہرت یافتہ ٹمبورا دھن بجانے والے فنکار شیعان بگٹی کی گفتگو

پچپن سالہ شیعان بگٹی کہتے ہیں فن تو فن ہوتا ہے اپنی قدر ہر جگہ کرواتا ہے لیکن اس فن کے قدر دان ملک سے باہر زیادہ ہیں۔لوگ دھن بجانے کے دوران میری ہزاروں کی تعداد میں ویڈیوز بناتے ہیں اور پھرمیری بنی دھنوں کو استعما ل کرتے ہوئے ہزاروں ڈالر بھی کما لیتے ہیں لیکن میرے پاس میرے فن کی کوئی ایک بھی  ویڈیو نہیں اسکی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مجھے سمارٹ فون کا استعمال کرنا نہیں آتا اسی لیے آج تک میں اس فن کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کرسکا۔ میں اس فن کو محفوظ کرنا چاہتا ہوں لیکن  ایسا کرنے سے قاصر ہوں اسی وجہ سے اب میں نے اپنے بیٹے کو سکول داخل کروادیا ہے تاکہ کچھ پڑ لکھ لے اور اس ساز کو جدید دور کے مطابق ڈھال سکے کیونکہ موسیقی کے بدلتے ہوئے روجحان نے اس ساز کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے اگر اس کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نہیں کیا گیا تو یہ ساز اپنی موت خود ہی مر جائے گا۔
بلوچستان  کے علاقے ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والا یہ فنکار بچپن سے ہی ٹمبورا بجاتا آیا ہے پہلے اپنے والد کے ساتھ ملکربجاتاتھا پھر والد کی وفات کے بعد اپنے خاندان کیساتھ ملکراس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
1989میں پہلی بار میں نے لوک ورثہ میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا اس وقت میں اپنے والد کے ساتھ آیا تھا تب سے ہر سال یہاں آکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہوں۔ شیعان بگٹی نے مزید بتایا کہ اس فن کی حکومتی سطح پر سرپرستی نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے ہماری آنے والی نسل اس فن کو جاری رکھنے سے کتراتی ہے اگرچہ بلوچستان  حکومت نے کچھ مہینے تین ہزارروپے ماہانہ دینے شروع کئے تھے لیکن اب وہ بھی دینا بند کر دئیے ہیں۔صرف اس فن سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے اس لئے ہمیں ساتھ کھیتی باڑی کا کام بھی کرنا پڑتا ہے۔
شیعان بگٹی نے یہ فن اپنے بیٹے کو سیکھایا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ وہ اس فن کو جدید طریقوں پر استوار کرکے آمدنی کا ذریعہ بھی بنائے تا ہم مالی حالات اس کے اس خواب کو پورا کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔شیعان بگٹی اگر چہ جدید ٹیکنالوجی سے تو کچھ زیادہ واقف نہیں لیکن ان کو اتنا ضرور پتا ہے کہ اگر وہ بھی ڈیجیٹل میڈیا کو  اپنے فن کی ترقی کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس کی نہ صرف ملکی اور غیر ملکی سطح پر پزیرائی مل سکتی ہے بلکہ یہ فن اس کیلئے فائدہ مند پیشہ بھی بن سکتا ہے۔

سمارٹ فون کا استعمال کرنا نہیں آتا اس لئے میرے پاس میری بجائی گئی دھن کا کوئی ریکارڈ نہیں

ایک سوال پر شیعان بگٹی کہتے ہیں کہ  جدید ٹیکنالوجی نے باقی شعبوں کی طرح ٹمبورا کے فن کو بھی متاثر کیا ہے اور آج کل کی نسل کا  روجحان  جدید میوزک کی طرف زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس فن کو ختم ہو نے کا خطرہ ہے تاہم شیعان کے مطابق اسکی مقبولیت علاقائی سطح پر زیادہ ہے۔ لوگ آج بھی شادیوں اور دیگر تقریبات پر اس ساز کو شوق سے سنتے ہیں۔

ٹمبورا کا تعارف
ٹمبوراکا ساز 700سال پرانا ہے اور بلوچ قوم صدیوں سے اس ساز کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ پرپوکی لکڑی سے بنا یہ ساز لکڑی کے تین ٹکڑوں پر مشتمل ہے اور اس کو بنانے کے لیے بہت خاص قسم کی مہارت چاہیے ہوتی ہے۔ ٹمبورا ساز میں سب سے زیادہ اہمیت اس کی بناوٹ کی ہے اگر سازمیں ٹھیک طریقے سے توازن نہ ہو تو اس کا ’سر نہیں بنتا۔ اس کی بناوٹ کے لیے خاص قسم کی مہارت درکار ہو تی ہے جوماہر استاد ہی بنا سکتے ہیں۔  یہ  وہ ساز ہے جو ڈھولک کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔
ٹمبورا، ٹمبوری، یا تندورا، لمبی گردن والا جھنجھلاہٹ والا لیوٹ۔ اس کی گردن کھوکھلی ہوتی ہے، جس کی لمبائی تقریباً 40-60 انچ (102-153 سینٹی میٹر) ہوتی ہے، اور عام طور پر اس میں دھات کے چار تار ہوتے ہیں۔
تاروں اور نچلے حصے کے درمیان چھوٹے سوراخ کرکے اون یا ریشم کو تاروں سے منسلک کیا جاتا ہے اورچھوٹے موتیوں کوبھی لگایا جاتاہے۔ بلوچستان میں ٹمبورا کا ڈھانچہ پرپوکی لکڑی کے کھوکھلے ٹکڑے سے بنا ہوتا ہے (پرپوایک خاص قسم کی لکڑی ہوتی ہے جو بلوچستان کے پہاڑوں میں پائی جاتی ہے)۔
ٹمبوراساز میں بھی کافی مشہور ساز ہے۔یہ جنوبی ہندوستان میں ٹمبورا کاڈھانچہ ’جیک لکڑی‘ کے کھوکھلے ٹکڑے سے بنا ہوتا ہے (جیک فروٹ کے درخت کی لکڑی) جبکہ شمال میں اسے لوکی سے تیار کیا جاتا ہے۔ اسے عمودی پوزیشن میں رکھا جاتا ہے، اور موسیقار اس کے پیچھے بیٹھے ہوئے تاروں کو توڑ کر اس ساز کو بجاتا ہے۔
ٹمبورا کا بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال
اس قدیم ساز کو نہ صرف خوشی کے موقع پر بجایا جاتا ہے بلکہ بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں اس کو بیمار کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ علاج کے وقت تین لوگ ہوتے ہیں ایک مریض، طبیب اور ٹمبورا ساز۔ مریض کو ایک چارپائی پر لٹایا جاتا ہے اور ٹمبورا کے ساز پر جھوم جھوم کر طبیب اس کا علاج کرتا ہے۔ علاقائی لوگوں کا اس طریقہ علاج پر یقین ہے۔ شیعان بگٹی کہتے ہیں زیادہ تر مریض اس طریقہ علاج سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔

 موسیقی کے بدلتے ہوئے روجحان نے اس ساز کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے

شیعان بگٹی پاکستان کی لوک موسیقی کی روایت کو زندہ رکھنے اور مقامی ساز الغوزہ کے ذریعے دل نواز دھنیں بکھیرنے کے لیے ملک اور بیرونِ ملک بھی پہچانے جاتے ہیں۔
1921ء میں بلو بگٹی میں پیدا ہونے والے شیعان بگٹی  کا خاند ان آلاتِ موسیقی بھی  بناتا  ہے بچپن سے نوجوانی ہی میں انھیں دھن ساز مشہور کردیا۔ وہ اس ساز کو بجانے میں مہارت حاصل کرتے چلے گئے اور مقامی لوگوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ اسی شہرت نے ایک دن انھیں ریڈیو اسٹیشن تک پہنچا دیا۔
ٹمبورا کا ساز جسے بجاتے ہوئے اس کا ماہر دل موہ لینے والی دھنیں بکھیرتا ہے۔ آج جدید آلاتِ موسیقی اور سازوں کے ساتھ ساتھ طرزِ گائیکی بھی بدل گیا ہے۔ کئی روایتی ساز مٹ چکے ہیں جب کہ لوک موسیقی میں لوگوں کی دل چسپی بھی کم ہی نظر آتی ہے، اسی طرح پاک و ہند کا یہ مقبول ساز ٹمبورا بھی اسی طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔ اور اس کے ماہر سازیندے اب کم ہی رہ گے ہیں۔
شعیان بگٹی کو ریڈیو کے بعد ٹیلی ویثرن پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا اور انھیں بیرونِ ملک بھی پہچان ملی۔
شیعان بگٹی نے اپنی دھنوں سے سامعین کو محظوظ کرتے ہوئے لوک موسیقی اور اس مقامی ساز کے ذریعے اپنی ثقافت کو فروغ دیا۔
دنیا میں تیزی سے بدلتے حالات نے ثقافت کی صنعتی اہمیت کو بڑھا دیا ہے جس کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں ثقافت کو ملکی پالیسی کا اہم جز قرار دیا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے جس میں کنیڈااور امریکہ قابل ذکر ہیں  جن کی تعلیمی ثقافت اپنی مثال آپ ہے۔  پاکستان دنیا کی بے شمار نعمتوں کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت میں ایک نمایاں مقام رکھاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو قومی پالیسی کا حصہ بنایا جائے تاکہ اس سے نہ صرف صدیوں پرانی ثقافت کو محفوظ کیا جا سکے بلکہ اس کو صنعت کا  درجہ دے کر اس کے لیے پالیسی بنائی جائے جس سے ملک کے لیے زرمبادلہ کمایا جا سکے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.