اسلام اباد: 20 نومبر کو دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد بچوں کے حقوق کے تحفظ، ان کی بہبود اور ان کے مسائل کی جانب توجہ دینا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ دن ہر سال صرف رسمی تقریبات اور بیانات تک محدود رہتا ہے، جبکہ بچوں کی حالت زار میں کوئی خاطر خواہ بہتری نظر نہیں آتی۔
تعلیم سے محرومی: ایک قومی المیہ
پاکستان کے بچے، جو ہمارا مستقبل اور حال دونوں ہیں، بدقسمتی سے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا میں دوسری سب سے زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کے 22.8 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں، جو اس عمر کے بچوں کی کل آبادی کا 44 فیصد بنتے ہیں۔
5 سے 9 سال کی عمر کے گروپ میں، 5 ملین بچے اسکولوں میں داخل نہیں ہو پاتے۔ پرائمری اسکول کی عمر کے بعد یہ تعداد دوگنی ہو جاتی ہے، اور 10 سے 14 سال کی عمر کے 11.4 ملین بچے رسمی تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان میں سے ایک کروڑ سے زائد بچے چائلڈ لیبر میں مصروف ہیں، جہاں وہ کم اجرت پر سخت مشقت کرتے ہیں اور ان کے لیے تعلیم، صحت اور تفریح جیسے مواقع خواب بن کر رہ جاتے ہیں۔
صحت کی حالت: ایک افسوسناک حقیقت
پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ ہر ایک ہزار بچوں میں سے 41 نوزائیدہ ایک سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی انتقال کر جاتے ہیں، جبکہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح 67 فی ہزار ہے۔
ہر روز 700 سے زائد نوزائیدہ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جن میں سے 15 فیصد قبل از وقت پیدائش یا پیچیدگیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہمارے صحت کے نظام کی سنگین ناکامی اور سماجی بے حسی کو ظاہر کرتے ہیں۔
جنسی استحصال اور تشدد
پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد اور استحصال کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ساحل تنظیم کے مطابق، 2024 کے پہلے چھ ماہ میں بچوں کے جنسی استحصال کے 1,630 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 94 کیسز پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کے تھے۔
مزید برآں، 668 بچوں کے اغوا، 82 کے لاپتہ ہونے، 18 کم عمری کی شادیوں، اور جنسی زیادتی کے بعد فحش نگاری کے 48 واقعات درج ہوئے۔
یہ رجحان ہر سال بڑھ رہا ہے، اور رپورٹ شدہ کیسز میں 30 سے 32 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال ہمارے سماجی ڈھانچے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔
کم عمری کی شادیاں اور دیگر مسائل
ملک میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان ایک سنگین مسئلہ ہے۔ 22 فیصد بچیوں کی شادیاں 18 سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہیں، جبکہ 4 فیصد کی شادیاں 15 سال سے کم عمر میں ہوتی ہیں۔ یہ نہ صرف ان کی صحت اور تعلیم کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ان کے معاشی مواقع کو بھی محدود کر دیتی ہیں۔
گھروں، اسکولوں، کام کی جگہوں، مساجد اور مدارس میں بچوں پر جسمانی اور ذہنی تشدد عام ہے۔ آن لائن ہراسانی نے بھی بچوں کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ سینکڑوں بچے جیلوں میں غیر انسانی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جبکہ کئی بچے بیرون ملک روزگار، تعلیم یا شادی کے بہانے اسمگل ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں : https://urdu.thepenpk.com/?p=2314
عملی اقدامات کی ضرورت
پاکستان میں بچوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جامع اور عملی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
- حکومت کو فوری طور پر بچوں کے تحفظ سے متعلق مؤثر قوانین کے نفاذ کو یقینی بنانا ہوگا۔
- تعلیم اور صحت کی سہولیات بہتر بنائی جائیں تاکہ ہر بچے کو تعلیم اور صحت کا بنیادی حق حاصل ہو۔
- کم عمری کی شادیوں کے خاتمے کے لیے عوامی شعور بیدار کیا جائے اور اس عمل میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
- بچوں کے ساتھ جنسی اور جسمانی تشدد کے کیسز میں ملوث افراد کو مثالی سزائیں دی جائیں۔
- چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے بچوں کے خاندانوں کو معاشی مدد فراہم کی جائے تاکہ بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔
بچوں کے عالمی دن کا اہمیت
بچوں کا عالمی دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہیں، اور ان کے حقوق کا تحفظ ہماری اجتماعی انسانی، اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ یہ دن ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم نہ صرف بچوں کے مسائل پر غور کریں بلکہ ان کے حقوق کی پاسداری کے لیے عملی اقدامات کریں۔
پاکستان میں بچوں کی بڑی تعداد تعلیم، صحت، تحفظ، اور بنیادی سہولیات سے محروم ہے، جس کا اثر نہ صرف ان کی زندگیوں پر بلکہ ملک کی مجموعی ترقی پر بھی پڑتا ہے۔ اسکول سے باہر بچوں کی بڑھتی تعداد، چائلڈ لیبر، جنسی استحصال، اور کم عمری کی شادی جیسے مسائل ہمارے معاشرتی اور قانونی نظام کی ناکامی کو اجاگر کرتے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم صرف تقریبات اور بیانات تک محدود نہ رہیں بلکہ اپنے بچوں کو ایک محفوظ، تعلیم یافتہ اور صحت مند ماحول فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔
ہر بچے کو معیاری تعلیم، صحت کی بہتر سہولیات اور تحفظ فراہم کرنا ریاست اور سماج دونوں کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کے مسائل کا خاتمہ نہ صرف ایک بہتر اور خوشحال معاشرے کی بنیاد رکھے گا بلکہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ کیے بغیر ترقی اور خوشحالی کا خواب ادھورا اور ناقابلِ حصول رہے گا۔