چڑیوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت

0

تحریر: روزینہ علی 

صبح کی پہلی کرن نمودار ہوتے ہی کانوں میں چڑیوں کی چوں چوں سنائی دیتی تھی، اور چڑیوں کی چہچہاہٹ گھڑی کے الارم سے زیادہ خوبصورت لگتی تھی۔ 

رئیس فروغ لکھتے ہیں کہ

چوں چوں کرتی چڑیا نے،
ننھے منے پنکھ ہلائے
اوس کی ننھی بوندوں نے، کلیوں کے چہرے چمکائے

لیکن یہ بات تو بہت پرانی ہو گئی۔ آج وہ صبحیں اس بے مثال پرندے کی میٹھی آواز کے بغیر ہوتی ہیں۔ صبح کے سماں میں اس پرندے کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ یہ حسین صبحیں تب نصیب تھیں جب ہم اندرونیڈ سے دور تھے، تو نہ راتوں کو دیر تک جاگنا ہوتا تھا نہ صبح کو دیر سے اٹھنے کا کوئی بہانہ تھا۔ آج وقت بدل چکا ہے کیونکہ رات کو دیر سے سونے کا عذر ہے کہ سمارٹ فونز پر مختلف سوشل ایپس پر ریلز دیکھتے وقت گزر جاتا ہے یا پھر کوئی ڈرامہ یا فلم دیکھتے گھنٹوں گزر جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ صبح جلدی انکھ نہیں کھلتی۔

خیر، بات تو چڑیا کی ہو رہی ہے اب جب جلدی آنکھ نہیں کھلتی تو اس پرندے سے ملاقات بھی ناممکن ہو گئی ہے۔ البتہ، دن میں بھی جب یہ پرندہ نظر نہ آیا تو تشویش بڑھ گئی۔ پھر معلوم پڑا کہ چڑیا کا عالمی دن منایا جارہا ہے 20 مارچ کو تو سوچا چلو اس بار اس پرندے کی معلومات لیتے ہیں۔ رپورٹ بنانے کے لیے مجھے جتن تو بہت کرنے پڑے۔ میرے ذہن میں پہلا خیال آیا کہ اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ سے رابطہ کروں، لیکن وہاں سے کوئی کورا سا جواب ملا کہ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ میں نے رپورٹ بنانے کی ٹھان لی تھی تو مزید چھان بین کرنے لگی کہ شاید کسی ایسے انسان سے رابطہ ہو جس کو کچھ معلومات ہوں۔ پاکستان وائلڈ لائف فیڈریشن کے وائس چیئرمین صفان شہاب سے بات کی تو پتہ چلا گزشتہ 10 سالوں میں چڑیوں کی نسل میں ستر فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے جسکی بنیادی وجہ فصلوں پر زہریلی ادویات کا بے جا استعمال، جنگلات کا تیزی سے خاتمہ اور چڑیوں کا شکار ہے، اتنا ہی نہیں چڑیوں کو پنجروں میں قیدکر کے پھر صدقہ جاریہ کے نام پر ان چڑیوں کو بیچا جاتا ہے۔ چڑیوں کو پکڑ کر قید کرنے کے مرحلے کے دوران بھی کئی چڑیا مر جاتی ہیں جسکا ریکارڈ کسی ادارے کے پاس موجود ہی نہیں۔ پھر چڑے کھانے کے شوقین افراد بھی چڑیوں کی نسل کشی کے ذمہ دار ہیں۔ صفان شہاب نے بتایا کہ آج پنجاب کے مختلف علاقوں میں چڑوں کے کھابوں سے مشہور ہوٹل ہیں جن پر پابندی ضروری ہے۔

سریلی اور میٹھی آواز میں سہانی صبح میں روشن اجالوں کے ساتھ چہچہانے والی چڑیوں کی نسل کشی کو روکنے اور عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے اس دن کو منانے کا آغاز 2010 میں ہوا تاکہ اس ننھے خوبصورت پرندے کی نسل کشی کو روکا جا سکے عوام میں شعور بیدار کیا جا سکے اور انہیں بتایا جا سکے کہ چڑیا سے چڑوں سے پیار کرنا ہے انہیں اس ماحول کی زینت بنے رہنے دینا ہے۔ میں اسلام آباد میں رہتی ہوں اور میں نے تو چڑیوں کی کمی کو محسوس کیا۔ پھر میری بہن نے بھی کہا کہ ہاں چڑیاں نظر نہیں آتیں۔ میری والدہ نے بتایا کہ وہ چھت پر دانہ پانی رکھنے جاتی ہیں، مگر چڑیاں نظر نہیں آتیں۔ اور یہ معلوم ہوا کہ نہ صرف ہم بلکہ اسلام آباد کے کئی شہریوں نے بھی چڑیوں کی کمی کو محسوس کیا ہے۔ رپورٹ تیار کرنے کے دوران مختلف شہریوں سے پوچھا گیا کہ آخری بار کب چڑیا دیکھی گئی تھی، اور انہوںں نے جواب دیا کہ سات آٹھ ماہ پہلے اپنے آبائی علاقے میں چڑیا دیکھی گئی تھی۔ بعض نوجوانوں سے بات ہوئی تو ان کا بھی یہی جواب تھا کہ اسلام آباد میں چڑیا نظر نہیں آئی۔ اسلام آباد کے سرسبز درخت بھی اس بے مثال پرندے کے گھونسلوں سے محروم ہیں، جیسے شہر کی معطر فضاؤں سے یہ پرندے بالکل روٹھ گئے ہیں۔

برکت علی فراق نے لکھا کہ

آؤ بچو گیت سنائیں

گیت سنائیں خوب ہنسائیں

اک بڑھیا نے چڑیا پالی

ننھی منی بھولی بھالی

بڑھیا بیٹھی کھیر پکاتی

چڑیا اس کو گیت سناتی

اک دن بڑھیا بھوکی آئی

جلدی جلدی کھیر پکائی

منہ دھو کر وہ کھانے بیٹھی

چڑیا گیت سنانے بیٹھی

بڑھیا نے سب کچھ کھا ڈالا

چڑیا کو بھوکا ہی ٹالا

چڑیا جب پنجرے میں آئی

بھوک سے اس کو نیند نہ آئی

چوں چوں چوں چوں کر کے روئی

ساری رات اسی میں کھوئی

صبح ہوئی اور مرغا بولا

بڑھیا نے جب پنجرا کھولا

پیار سے جب اس نے چمکارا

چڑیا نے چونچوں سے مارا

بڑھیا بھاگی گھر میں آئی

مٹھی بھر کر دانا لائی

جب بڑھیا نے دانا کھلایا

تب چڑیا نے گیت سنایا

کیا خوبصورت یہ نظم ہے، پہلے کتابوں میں پڑھنے کے ساتھ یہ ننھی منھی چڑیا ادھر اُدھر پھدکتی رہتی تھی اور کتاب میں پڑھی کہانی کا مزہ دوبالا ہو جاتا تھا۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ سے ماحول میں ایک عجیب رونق تھی، مگر دنیا بھر میں ہر بچے کی آنکھ کا تارا یہ ننھا سا پرندہ اب تیزی سے بڑھتی آبادی کے رش میں گم ہوتا جارہا ہے۔ چڑیا کی نسل کشی روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہونگے، چڑیا کے شکار پر پابندی لگانا ہوگی ورنہ یہ چڑیا بھی کتابوں میں صرف قصے کہانیوں تک رہ جائے گی۔

فصلوں پر زہریلی ادویات کے بے جا اسپرے کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا، اور اس ضمن میں حکومت کو پرندوں سے متعلق پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ گرمیوں میں خاص طور پر اپنے گھر کی چھتوں پر یا لان میں چڑیا سمیت مختلف پرندوں کے لیے دانے پانی کا ضرور بندوبست کریں۔ شکریہ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.