پشاور: سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے مقدمے میں جو فیصلہ دیا ہے، وہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کے بہترین فیصلوں میں شمار کیا جائے گا۔ اس فیصلے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو جس طرح کالعدم قرار دیا ہے، اس کے جمہوریت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اس فیصلے میں الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے اقدام کو بھی رد کر دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے یہ اقدامات ماورائے آئین تھے، جن کے تحت عام انتخابات کے بعد مخصوص نشستیں ان جماعتوں کو دی گئیں، جن کا اس پر حق نہیں تھا۔
اس اعتبار سے سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملک میں جمہوریت کو فروغ ملا اور یہ بات ثابت ہوئی کہ جمہوری معاشرے میں عوام کی رائے سب سے زیادہ مقدم ہے۔
الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی غیر آئینی طور پر تقسیم کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے جس انداز سے یہ نشستیں تقسیم کی تھیں ان کا کوئی قانونی جواز نہیں بنتا تھا، اس تقسیم میں عوام کی رائے کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ اسی وجہ سے اس فیصلے کا عوامی طور پر خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ اس فیصلے نے پاکستان میں جمہوری اقدار کے بہت سے معیار کا تعین کر دیا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ انتخابی نشان لینے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کسی پارٹی کے اپنے اور اس کے امیدواروں کے حقوق چاہے عام انتخابات ہوں یا ضمنی، انہیں کلی یا جزوی طور پر سلب کر لیا جائے۔
عام انتخابات میں تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان کیا لیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے اس کے امیدواروں کی پارٹی وابستگی کا حق بھی ان سے چھین لیا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے ارٹیکل 51 اور 106 کی شقوں میں اس بات کی واضح ضمانت موجود ہے کہ پارٹی امیدواروں کو اپنی من پسند سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کا حق حاصل ہے۔
2024 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف جیسی جماعت کے امیدواروں سے ان کی پارٹی شناخت چھین لی گئی، حالانکہ یہ وہی پارٹی ہے جو اس سے قبل دو بار انتخابات میں واضح عوامی مینڈیٹ حاصل کر چکی تھی۔
اس کے باوجود حالیہ عام انتخابات میں اس کے امیدواروں سے پارٹی وابستگی کا حق چھین لیا گیا۔ اس حق کو چھیننے کی وجہ سے تحریک انصاف کے امیدواروں کو مجبوراً آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنا پڑا۔
عدالت عظمیٰ پاکستان کے آئین میں درج ضمانتوں اور قوانین کے تحت اس فیصلے میں ان آزاد امیدواروں کو ایک بار پھر موقع دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق پاکستان تحریک انصاف سمیت جس پارٹی میں بھی شامل ہونا چاہیں، شامل ہو جائیں۔
اس معاملے کا اگر جائزہ لیا جائے تو عام تاثر یہی ابھرتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی امیدواروں کو ان کے آئینی اور قانونی حق سے محروم کیا۔
یہ سلوک ایک ایسی جماعت کے ساتھ کیا گیا جو اس سے پہلے بھی پارلیمان کے اندر اور باہر عوامی حمایت رکھتی ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ تصور اس وجہ سے پروان چڑھا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف سے صرف انتخابی نشان واپس لینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ مختلف حیلے بہانوں سے پارٹی کی رجسٹریشن میں بھی رخنے ڈالے۔
الیکشن کمیشن کے یہ اقدامات مختلف اوقات میں جاری رہے۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تو یہ ہوتی ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ طور پر صاف و شفاف انتخابات کرائے لیکن اس نے پاکستان تحریک انصاف اور اس کے امیدواروں کے معاملے میں جو رویہ اپنا رکھا تھا، اس کے دوران الیکشن کمیشن نہ صرف پارٹی بلکہ پارٹی امیدواروں اور سب سے بڑھ کر ووٹرز کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔
الیکشن کمیشن کے ان امتیازی اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان تحریک انصاف کو مساوی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ان اقدامات کے باعث پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو لیول پلیئنگ فیلڈ بار بار تقاضے کے باوجود نہیں مل سکی۔ الیکشن کمیشن کے ان امتیازی اقدامات نے پاکستان تحریک انصاف کو بحیثیت پارٹی الجھا کر رکھ دیا۔
وہ مختلف محاذوں پر قانونی اور آئینی جنگ لڑتی رہی۔ پارٹی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں تھی، جس کی وجہ سے غیر یقینی کی کیفیت بھی برقرار رہی۔ اس صورتحال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز بہت زیادہ کنفیوژن کا شکار ہو گئے۔
ان حالات میں تحریک انصاف کے حمایتی امیدواروں میں تو مایوسی پھیل گئی تھی، لیکن تحریک انصاف کے لئے ایک خوش آئند پہلو یہ تھا کہ اس کے ووٹرز تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دینے کے لئے بہت بے تاب تھے۔
انتخابی مہم نہ ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پارٹی کے حمایتی امیدواروں کے حق میں ووٹ دیا۔ تحریک انصاف کے ووٹرز نے کایا پلٹ دی اور عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹ کی اہم جماعت کے طور پر ابھری۔
پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز نے جس طرح پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ ڈالا، اس کی وجہ سے تحریک انصاف کو انتخابات میں ہرانے کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔
الیکشن نتائج سامنے آنے کے بعد الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دینے کے معاملے پر نت نئے عذر تراشے جن کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو ان کی مخصوص نشستوں سے محروم رکھا جائے۔ نئی نئی معروضات سے تحریک انصاف کے امیدواروں کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ اپنی مخصوص نشستیں بچانے کے لئے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو جائیں۔
ایک طرف تحریک انصاف یہ کوششیں کر رہی تھی دوسری طرف الیکشن کمیشن ہر حال میں پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں سے محروم رکھنا چاہتا تھا۔ الیکشن کمیشن کی ان رخنہ اندازیوں کا مقصد یہ تھا کہ تحریک انصاف کے جذبوں کو کمزور کردیا جائے، لیکن تحریک انصاف کی قیادت پوری قوت کے ساتھ میدان میں موجود رہی۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرز سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن عام انتخابات کے بعد سے اس نے جس طرح قانونی اور سیاسی جنگ لڑی، اس پر تحریک انصاف داد کی مستحق ہے۔ تحریک انصاف نے عدالتی جنگ میں بھرپور طریقے سے اپنا موقف پیش کیا۔
ایسے حالات میں سپریم کورٹ نے ان کا حق تسلیم کرتے ہوئے اعلیٰ عدالتی اقدار کو زندہ کرتے ہوئے آئین پاکستان کی روح کے مطابق فیصلہ دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جو فیصلہ مخصوص نشستوں کے بارے میں جاری کیا وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے عین مطابق ہے۔ آئین پاکستان کے دیباچے میں کائنات پر حاکمیت کا حق اللہ کا ہے۔ جس کے بعد ریاست میں اختیار صرف انہی عوامی نمائندوں کو ہوگا، جن کو عوام منتخب کریں گے۔
آئین کے تحت عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں، وہ جس کے حق میں فیصلہ دیں گے وہی ملک کا انتظام و انصرام چلائے گا۔ عوام جو نمائندے چنیں گے وہی ملک کو، عوام کے مفاد میں چلائیں گے۔ آئین میں اسلامی تعلیمات کی طرح آزادی اظہار، آزادی اظہار رائے، مساوات اور برداشت کے اصولوں کو مقدم رکھا گیا ہے۔ ملک کے جمہوری نظام کے تحت آئین میں درج تمام بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔
جس میں سماجی و معاشی استحکام، سیاسی مساوات، اقلیتوں کے حقوق کی آزادی، ملک میں مذہبی آزادی، ہر باشندے کو اس کے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی، سمیت ملک کے نچلے اور پسے ہوئے طبقوں کے حقوق کی ضمانت یہی آئین فراہم کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے فروغ اور قانون کی بالادستی کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ اس فیصلے کا سب سے اہم رخ یہ ہے کہ چور دروازے سے ملکی اقتدار میں آنے والوں کا راستہ ہمیشہ کے لیے روکنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اس فیصلے سے ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام میں بہت معاونت ملے گی۔
یہ کالم مصنف کی زاتی رائے ہے یہ تنظیم کی ادارتی پالیسی پر عمل پیرا بھی ہو سکتا ہےاورنہیں بھی.
ڈاکٹر سید اختر علی شاہ معروف تنظیم گڈ گورننس کے چیئرمین ہیں۔ وہ پولیس اور بیوروکریسی میں اہم مناصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ ملازمت سے سبکدوشی پروہ اب ملک میں بہتر طرز حکمرانی کیلئے کوشاں ہیں۔