پشاور:پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم “ساحل” کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، رواں سال جنوری سے جون تک ملک بھر میں 1,630 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ معاشرے میں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے شدید فقدان پایا جاتا ہے۔
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کے حقوق کے بارے میں معاشرتی آگاہی اور تعلیم کی کمی کے نتیجے میں جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ساحل کی رپورٹ کے مطابق، رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں جنسی زیادتی کے واقعات میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 41 فیصد متاثرین لڑکے جبکہ 59 فیصد لڑکیاں تھیں۔
پشاور میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے نمائندے ضیاء الحق نے کہا کہ قوانین کے مؤثر نفاذ کی عدم موجودگی بچوں کی حفاظت میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ ان کے مطابق، “ہمارے معاشرے میں بچے محفوظ نہیں ہیں کیونکہ قوانین کے نفاذ میں کوتاہی برتی جاتی ہے، جس کا فائدہ ہمیشہ ملزمان کو پہنچتا ہے۔”
رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ 48 واقعات میں بچوں کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں، جبکہ 6 سے 15 سال کے بچے سب سے زیادہ نشانہ بنے۔ رپورٹ کے مطابق، 47 فیصد واقعات میں مجرم بچوں کے قریبی جاننے والے تھے۔
مزید کے لیے لنک پر کلک کریں:https://urdu.thepenpk.com/?p=3225
ماہرین کے مطابق، حکومت کو بچوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے بارے میں اعداد و شمار کو باقاعدگی سے عوام کے سامنے لانا چاہیے تاکہ معاشرے میں بیداری پیدا ہو اور حکومتی مشینری فعال ہو سکے۔
فیصل مشتاق ایڈوکیٹ، پشاور ہائی کورٹ، کا کہنا ہے کہ غیر سرکاری ادارے اس حوالے سے مستند ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں، لیکن یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے۔
ساحل کی رپورٹ میں جنسی تشدد کے 862، بچوں کے اغوا کے 668، بچوں کی گمشدگی کے 82 اور کم عمری کی شادی کے 18 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق، 5 سال سے کم عمر کے 94 بچے بھی جنسی زیادتی کا شکار ہوئے۔
ساحل تنظیم کے مطابق، 2024 کے پہلے چھ مہینوں میں، کل کیسز میں سے 78 فیصد پنجاب سے اور 6 فیصد اسلام آباد سے رپورٹ ہوئے۔ باقی کیسز دوسرے صوبوں سے رپورٹ ہوئے، جن میں سندھ سے 11 فیصد، خیبر پختونخوا سے 3 فیصد اور بلوچستان، آزاد کشمیر، اور گلگت بلتستان سے 2 فیصد کیسز شامل ہیں۔
اس سال، 2024 میں رپورٹ کیے گئے کیسز میں سے 44 فیصد شہری علاقوں سے اور 56 فیصد دیہی علاقوں سے ہیں۔
یہ صورتحال اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں ڈھائی کروڑ کے قریب اسکول جانے کی عمر کے بچے تعلیم سے محروم ہیں، اور چائلڈ لیبر کی تعداد بھی دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام شراکت داروں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔