باجوڑ میں انتخابی دعووں کے باوجود خواتین کی تعلیم پر کوئی پیشرفت نہ ہوسکی

شازیہ محبوب

0

باجوڑ:سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 5 لاکھ 45 ہزار آبادی پر مشتمل ضلع باجوڑ کے سب ڈویژن نواگئی میں لڑکیوں کے لیے کالج نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ نواگئی سے تعلق رکھنے والی یسرا گل نے حال ہی میں میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا اور وہ پرامید تھیں کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنے علاقے کی خدمت کریں گی، لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ میٹرک کے بعد پورے نواگئی میں لڑکیوں کے لیے کوئی کالج نہ ہونے کی وجہ سے انہیں تعلیم کو خیرآباد کہنا پڑے گا۔

یسرا گل کے والد فیروز خان نے بتایا کہ ان کی ایک اور بیٹی ثناء گل نے بھی حال ہی میں میٹرک پاس کیا ہے۔ فیروز خان کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے نواگئی سے تقریباً پچیس کلومیٹر دور ہیڈکوارٹر خار میں واقع ضلع کے واحد گرلز ڈگری کالج میں داخلہ لینے کی بہت کوشش کی، لیکن وہاں پر محدود نشستوں کی وجہ سے ان کی بیٹیوں کو داخلہ نہیں مل سکا۔

فیروز خان کا مزید کہنا تھا، “میں نے ثناء گل اور یسرا گل کے خار گرلز کالج میں داخلے کے لیے سیاسی اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد سے بھی درخواست کی، لیکن مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔” یہ کہانی صرف یسرا اور ثناء گل کی نہیں ہے بلکہ حال ہی میں نواگئی کے واحد گرلز ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والی 95 طالبات بھی مزید تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق، نواگئی سب ڈویژن، جو کہ باجوڑ کی کل آبادی کا تقریباً 47 فیصد ہے، میں لڑکیوں کے لیے کوئی ہائیر سیکنڈری اسکول یا کالج موجود نہیں ہے۔ اس علاقے میں صرف چار گرلز ہائی اسکول ہیں، جن میں زیر تعلیم بچیوں کی تعداد 766 ہے۔ ان 766 بچیوں کے لیے میٹرک کے بعد تعلیم جاری رکھنے کے لیے کوئی کالج یا ہائیر سیکنڈری اسکول دستیاب نہیں ہے۔

باجوڑ کے سینئر صحافی انوراللہ خان کا خیال ہے کہ ان علاقوں میں تعلیمی سہولیات کی کمی کے ذمہ دار علاقائی مشران اور سیاسی عمائدین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن مہم کے دوران امیدوار جب ان علاقوں میں جاتے ہیں تو زیادہ تر لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کون ان کے مسائل حل کر سکتا ہے، بلکہ وہ دوستی، تعلقات اور ذاتی فائدے کو مدنظر رکھ کر ووٹ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں ہوتے۔

انوراللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی عمائدین بھی ان علاقوں کے مسائل سے واقف ہوتے ہیں، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ یہ مسائل بھول جاتے ہیں اور ان کی ترجیحات یکسر مختلف ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس پورے سب ڈویژن میں ابھی تک کوئی کالج یا ہائیر سیکنڈری اسکول نہیں بنایا گیا۔

جب باجوڑ سب ڈویژن نواگئی میں لڑکیوں کے لیے کالج اور ہائیر سیکنڈری اسکول نہ ہونے کے مسئلے پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (فی میل) مہرالنساء سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس مسئلے کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں اس کا بخوبی احساس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پورے باجوڑ میں صرف ایک ہی گرلز کالج ہے، تاہم ہم کوشش کر رہے ہیں کہ نواگئی میں ہنگامی بنیادوں پر ہائی اسکولوں میں سیکنڈ شفٹ کے تحت سیکنڈری لیول کلاسز کا آغاز کیا جائے تاکہ اس سال میٹرک کا امتحان پاس کرنے والی زیادہ سے زیادہ طالبات کو مزید تعلیم جاری رکھنے کا موقع فراہم کیا جا سکے۔

محکمہ تعلیم باجوڑ کے اعداد و شمار کے مطابق، صرف تحصیل ناوگئی میں پرائمری سطح پر 19 سکولوں میں 3277 بچیاں زیرِ تعلیم ہیں، جبکہ اس تحصیل میں لڑکیوں کے لیے صرف 3 مڈل سکول ہیں، جن میں 112 بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ واحد ہائی سکول میں یہ تعداد 95 تک محدود ہوگئی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہائی لیول پر تعلیمی اداروں کی کمی کی وجہ سے بچیاں تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہوتی ہیں۔

باجوڑ میں 51 منظور شدہ سکولوں پر کام روکا گیا ہے، جن میں لڑکیوں کے 21 سکول بھی شامل ہیں۔ محکمہ تعلیم کے مطابق، پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں ضم اضلاع، خصوصاً باجوڑ میں نئے سکولوں کے قیام اور پرائمری، مڈل اور ہائی سکولوں کی اپ گریڈیشن کی منظوری دی گئی تھی۔ اس میں 100 نئے پرائمری سکول شامل تھے، جن میں سے باجوڑ کو 12 نئے سکول ملے، جن میں لڑکیوں کے 10 اور لڑکوں کے 2 سکول شامل ہیں، مگر فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ منصوبہ رکا ہوا ہے۔

مزید برآں، باجوڑ میں 6 پرائمری سکولوں کو مڈل سطح پر اپ گریڈ کرنے کی منظوری دی گئی تھی، جس میں ایک لڑکیوں اور پانچ لڑکوں کے سکول شامل ہیں۔ مڈل سے ہائی سطح کے 16 سکولوں کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ بھی تھا، جس میں لڑکیوں کے 5 اور لڑکوں کے 11 سکول شامل تھے۔ اسی طرح، ہائی سے ہائیر سیکنڈری سطح تک کے 17 سکولوں کی اپ گریڈیشن کی منظوری دی گئی تھی، جن میں لڑکیوں کے 5 اور لڑکوں کے 12 سکول شامل ہیں۔ تاہم، فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ان منصوبوں پر کام روک دیا گیا ہے۔

دی تھینکرز ایسوسی ایشن باجوڑ، جو ضلع کے مسائل کی نشاندہی کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے، نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مردوں کے 6 تعلیمی اداروں کے مقابلے میں خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم کا صرف ایک ادارہ موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق، باجوڑ میں مردوں کی 650,798 کی آبادی کے لیے 6 اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں، جبکہ خواتین کی 637,147 کی آبادی کے لیے صرف ایک ادارہ ہے۔

دی تھینکرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین شاہد علی کے مطابق، باجوڑ میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے تعلیمی ادارے آبادی کے تناسب سے بہت کم ہیں۔ باجوڑ میں لڑکیوں کے لیے صرف ایک ڈگری کالج ہے، جس میں بی ایس کے صرف 2 مضامین پڑھائے جاتے ہیں، جبکہ ایف ایس سی کے لیے صرف 500 نشستیں موجود ہیں، جو کہ ناکافی ہیں۔ شاہد علی کا کہنا ہے کہ ہر سال میٹرک پاس کرنے والی سینکڑوں بچیاں ہائیر سیکنڈری اور کالج کی کمی کی وجہ سے تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ الیکشن سے قبل امیدوار عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں، مگر الیکشن کے بعد خاموش ہوجاتے ہیں۔

سابق صوبائی وزیر اور موجودہ ایم پی اے انورزیب خان کا کہنا ہے کہ سابقہ دور میں 51 سکولوں کی منظوری دی گئی تھی، مگر بدقسمتی سے نگران حکومت نے فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان منصوبوں پر کام روک دیا تھا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ انشاء اللہ ان منصوبوں کو دوبارہ شروع کیا جائے گا، اور پہلے مرحلے میں 51 سکولوں کی تعمیر مکمل کی جائے گی۔ مزید سکولوں کی تعمیر بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.