پشاور میں ایک ماہ میں 20 سے زائد بچے لاپتہ، پولیس خواب غفلت کا شکار

قاسم ضیاء

0

پشاور: صوبائی دارالحکومت پشاور کے مختلف علاقوں سے نوعمر لڑکے غائب یا اغوا ہونے لگے ہیں جن کے بارے میں تاحال کوئی معلومات سامنے نہیں آسکی۔ ایسے واقعات میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق ہر روز کسی نہ کسی تھانے کی حدود سے نوجوان اور کم عمر لڑکوں کے غائب ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

مصدقہ معلومات کے مطابق پچھلے ایک ماہ کے دوران 20 سے زائد کم عمر بچے اور نوجوان، جن میں مدرسہ اور اسکول جانے والے بھی شامل ہیں، مکمل طور پر غائب ہو چکے ہیں، اور ان کے لاپتہ ہونے کی رپورٹس مختلف تھانوں میں درج کرائی جا چکی ہیں۔

ان نو عمر لڑکوں کے غائب ہونے کے پیچھے مختلف خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ ایک بڑا خدشہ یہ ہے کہ یہ لڑکے دہشت گردانہ کارروائیوں، خصوصاً خودکش حملوں کے لیے تیار کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ ملک بھر میں، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں، دہشت گردی کی نئی لہر دیکھنے میں آ رہی ہے۔

دوسری جانب انسانی اعضاء کی اسمگلنگ کرنے والوں کے ہتھے چڑھنے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان میں سے بیشتر لڑکوں کی عمریں 18 سال سے کم ہیں، اور اب تک نہ کسی اسمگلر گروہ، نہ اغوا کاروں اور نہ ہی بیرون ملک لے جانے والے ایجنٹوں نے ان کے والدین سے رابطہ کیا ہے۔

مزید کے لیے لنک پر کلک کریں: https://urdu.thepenpk.com/?p=4177

غائب ہونے والے بچوں کا تعلق یکہ توت، حیات آباد، بڈھنی، پشتخرہ، باڑہ گیٹ، کوہاٹ اڈہ، کوہاٹ روڈ، رنگ روڈ، نوے کلے، ہریانہ، تاج آباد، تہکال، سواتی گیٹ، ناگمان، داودزئی، چارسدہ روڈ، متھرا، ارمڑ اور دیگر علاقوں سے ہے۔ اس حوالے سے پولیس کو رپورٹس کی جا چکی ہیں، لیکن پولیس اور دیگر ذمہ دار ادارے معاملے کی نزاکت کو سمجھنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں اور ان واقعات کے سدباب میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی طرح کے کم عمر نوجوانوں کے غائب ہونے کے واقعات حال ہی میں گلگت بلتستان میں بھی سامنے آئے ہیں، جو کہ کسی اچھے نتیجے کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔ ایک طرف غائب ہونے والے بچوں کے والدین شدید پریشانی کا شکار ہیں، جبکہ دوسری طرف یہ واقعات کسی بڑے خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

والدین کی جانب سے اپیل کی جا رہی ہے کہ ان واقعات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور لاپتہ بچوں کو تلاش کرنے کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائیں۔ پولیس اور دیگر اداروں کو چاہیے کہ ان واقعات پر مکمل توجہ دیں تاکہ مستقبل میں ایسے مزید واقعات نہ ہو سکیں اور ان بچوں کو دہشت گردانہ کارروائیوں میں استعمال ہونے سے بچایا جا سکے۔

اس خبر میں دی جانے والی معلومات رپورٹر کے ذرائع پر مبنی ہیں، جو ادارے کی پالیسی سے مختلف ہو سکتی ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.