مدرسوں میں جسمانی سزا کا رجحان, ایک اور معصوم بچے پر بے رحمانہ تشدد

عمران ٹکر

0

صوابی/تورڈھیر:بچوں پر جسمانی سزا کا ایک اور افسوسناک واقعہ صوابی کے نواحی علاقے تورڈھیر میں پیش آیا۔
تفصیلات کے مطابق تحصیل لاہور تھانہ تورڈھیر کے حدود دیہہ جہانگیرہ مسجد غازی گل میں مدرسے کے 11 سالہ حفظ القرآن طالب علم پر بہیمانہ تشدد کا واقعہ پیش آیا جس میں قاری محمد جواد نے طالب علم (ع) کو لاٹھی سے بری طرح مارا جس سے بچے کے جسم پر گہرے نشانات پڑ گئے۔ بچے کی تشدد کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
بچے پر تشدد کرنے پر والد گل محمد نے قاری محمد جواد کے خلاف متعلقہ تھانے میں مقدمہ درج کرادیا۔
اس واقعہ پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر صوابی ہارون رشید خان نے نوٹس لیتے ہوئے ڈی ایس پی سرکل لاہور فضل شیر خان کے قیادت میں ایس ایچ او تورڈھیر انسپکٹر گوہر خان اور اے ایس آئی عنایت بابا خیل نے وقت فوری کاروائی کرتے ہوئے ملزم محمد جواد کو گرفتار کیا گیا۔
اس دردناک واقعے نے علاقے میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔
ذرائع کے مطابق اس واقعے کے بعد علاقے کے عمائدین نے معاملے کو رفع دفع کرنے کی بھی کوشش کی اور بچے کے والد پر دباؤ ڈالا کہ وہ راضی نامہ کر لے، لیکن والد نے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے قانونی کارروائی پر زور دیا۔
جسمانی سزا کا معاشرتی نقصان
یہ واقعہ بچوں پر تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک اور مثال ہے، جو نہ صرف ان کی جسمانی بلکہ ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ نام نہ بتاتے ھوئے مقامی شعبہ تعلیم سے وابستہ اہل کار کا کہنا ہے کہ بچوں کی تربیت میں جسمانی سزا کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ صبر و تحمل اور محبت سے بچوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرنا ہی ان کی نشوونما کے لیے موزوں طریقہ ہے۔
پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت
جسمانی سزاوں کے روک تھام کے حوالہ سے سید عثمان ایڈوکیٹ پشاور ھائ کورٹ نے کہا بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین کا نفاذ اور تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا کے خلاف سخت پالیسی ضروری ہے۔ مدرسوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد کو روکنے کے لیے حکومتی سطح پر عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔
آگاہی اور قانون سازی
بچوں کے حقوق اور تحفظ کے لئے صوبائ سطح پر کام کرنے والے سماجی کارکن ظہور احمد ظریف خیل کے مطابق اس واقعے نے ایک بار پھر یہ یاد دلایا ہے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے نہ صرف والدین اور اساتذہ کو تربیت کی ضرورت ہے، بلکہ حکومت کو بھی بچوں پر تشدد کے واقعات کو روکنے کے لیے واضح اور مؤثر قوانین کا نفاذ یقینی بنانا ہوگا۔ عوامی آگاہی مہمات اور تربیتی پروگرامز کا انعقاد ایسے واقعات کے تدارک میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ظہور احمد ظریف خیل نے مزید بتایا کہ مدرسوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا کی مکمل ممانعت اور بچوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا ہی وہ راستہ ہے جو ایک صحت مند اور مہذب معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے۔
سید عثمان ایڈوکیٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں بچوں کے تحفظ اور فلاح کے لئے 2010 کا قانون موجود ہے جسکے مطابق بچوں کو جسمانی سزا دینا قانونی جرم ہے جسکی سزا 6 مہینے قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہے۔

مزید پڑھئے:https://urdu.thepenpk.com/?p=4133

Leave A Reply

Your email address will not be published.