لاہور:سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی کیسز کی سماعت جاری ہے، جس کی سربراہی معزز جسٹس امین الدین کر رہے ہیں۔
اس چھ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر بھی شامل ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ
سماعت کے دوران، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ وہ ماحولیات سے متعلق تمام معاملات پر غور کریں گے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ملک بھر میں ہاؤسنگ سوسائٹیز بنائی جا رہی ہیں جو ماحولیاتی مسائل کا سبب بن رہی ہیں۔
سپریم کورٹ نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ اسلام آباد کو صنعتی زون بنانے کے حوالے سے جسٹس نسیم حسن شاہ کو ایک خط موصول ہوا تھا۔
ملک بھر میں آلودگی کا بڑھتا ہوا مسئلہ
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی صرف اسلام آباد کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ پورے ملک کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کا دھواں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہے اور اس پر قابو پانے کی کوئی مؤثر کوشش نظر نہیں آتی۔
آئینی بینچ نے تمام صوبوں سے ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں رپورٹ طلب کر لی۔ جسٹس نعیم اختر نے کہا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کی وجہ سے کھیت کھلیان تباہ ہو رہے ہیں اور کاشتکاروں کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔
ماحولیاتی تحفظ کی ضرورت
جسٹس محمد علی مظہر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انوائرمنٹ پروٹیکشن اتھارٹی اپنا کردار ادا کیوں نہیں کر رہی؟
1993 سے ماحولیاتی آلودگی کا معاملہ زیر التوا ہے اور اب اس کو حل کرنا ضروری ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پورے ملک میں آلودگی کے سنگین مسائل ہیں، خاص طور پر پیٹرول میں ملاوٹ کی وجہ سے آلودگی بڑھ رہی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے بتایا کہ مانسہرہ اور سوات جیسے خوبصورت علاقے بھی اب آلودگی کا شکار ہو چکے ہیں، جہاں پولٹری فارم اور ماربل فیکٹریاں کام کر رہی ہیں۔
سماعت کی ملتویٰ
آئینی بینچ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔
فضائی آلودگی کا عالمی سطح پر بڑھتا ہوا مسئلہ
عالمی ماحولیاتی ویب سائٹ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔
لاہور میں فضائی آلودگی کا لیول 1039 پرٹیکیولیٹ میٹرز ریکارڈ کیا گیا، جو کہ عالمی سطح پر شدید آلودگی کو ظاہر کرتا ہے۔
لاہور میں آلودگی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، خاص طور پر کچھ مخصوص علاقوں میں جہاں صنعتی سرگرمیاں، بڑھتی ہوئی آبادی، اور ٹریفک کی شدت نے آلودگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔
غازی روڈ، سید مراتب علی روڈ، فدا حسین روڈ، اور ریوینیو سوسائٹی میں آلودگی کا لیول خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔
دوسرے نمبر پر نئی دہلی اور تیسرے نمبر پر ڈھاکا ہیں، جن میں بالترتیب 422 اور 215 پرٹیکیولیٹ میٹرز آلودگی ریکارڈ کی گئی۔
پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے، جیسے کہ ملتان (575)، پشاور (285) اور راولپنڈی (220) میں فضائی آلودگی کی شرح بلند ہے۔
مزید پرئیے:https://urdu.thepenpk.com/?p=5114