“مجھے ایک بار تو ایسے لگا کہ میرا یہ سفر موت پر ہی ختم ہوگا”
ساہیوال کے علی کی پاکستان سے اٹلی تک ڈھائی سالہ غیر قانونی ہجرت کی کہانی۔
الویرا وقاص
ساہیوال: علی کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کے ایک غریب دیہی علاقے سے ہے۔ وہ آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے۔ علی شادی شدہ ہے اور دو بچوں کا باپ ہے۔ وہ اپنی گزر بسر کے لیے ٹھیکے پر زمین لے کر کاشتکاری کرتا تھا، لیکن مسلسل فصلوں میں نقصان اور بڑھتے ہوئے قرضوں نے اسے بدترین مالی مشکلات میں مبتلا کر دیا۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ قرض خواہ اس کے گھر آ کر جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ غربت، بے روزگاری اور محدود مواقع نے علی کی زندگی کو مشکلات سے بھر دیا تھا، جس نے اسے بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ جانے پر مجبور کر دیا۔
علی کے گاؤں میں کئی لوگ پہلے ہی یورپ جا کر کامیاب ہو چکے تھے، اور ان کی کہانیاں سن کر علی نے بھی یورپ جانے کا فیصلہ کیا، خاص طور پر اٹلی کے شہر ٹریئسٹ جانے کا، جہاں اسے کام کے زیادہ مواقع کی امید تھی۔
اس مقصد کے لیے علی نے اپنے علاقے کے ایک ایجنٹ سے رابطہ کیا، جس نے یونان کے راستے اٹلی پہنچانے کا وعدہ کیا۔ ایجنٹ نے بھاری رقم طلب کی، اور علی نے اپنے خاندان سے ادھار لے کر یہ رقم ادا کی۔ ایجنٹ نے علی کو بیس افراد پر مشتمل ایک گروپ میں شامل کیا، جو غیر قانونی طور پر یورپ کے خطرناک سفر پر روانہ ہونے والا تھا۔ علی نے پاکستان سےڈھائی سال قبل دو ہزار با ئیس میں اپنے سفر کا آغاز کیا، اور پیدل سفر کرتے ہوئے ایران کی سرحد پار کی۔
اس سفر میں علی کو سخت موسم، پہاڑوں اور خطرناک راستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران، علی کو اسمگلرز کی رہنمائی حاصل تھی، اور وہ رات کے وقت چھپ کر سفر کرتے تھے تاکہ سرحدی محافظوں سے بچ سکیں۔
ایران پہنچنے کے بعد علی کو ترک سرحد پار کرنے کے لیے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسمگلرز نے اسے رات کے اندھیرے میں جنگلات اور پہاڑی علاقوں سے گزر کر ترکی کی سرحد پار کروائی۔ اس دوران، علی نے کئی دن بغیر مناسب خوراک اور پانی کے گزارے۔ اسمگلرز نے ان لوگوں کو سختی سے تاکید کی کہ سرحد پار کرتے وقت خاموش رہیں اور کسی بھی حالت میں پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔
ترکی میں کچھ دن قیام کے بعد، علی نے پیدل یونان کی طرف سفر شروع کیا۔ یہ مرحلہ بھی انتہائی خطرناک تھا کیونکہ یونان کی سرحد کو غیر قانونی طریقے سے عبور کرنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ یونان پہنچنے کے دوران، علی اور اس کے گروپ کو یونانی پولیس اور سرحدی گارڈز سے بچنے کے لیے جنگلات میں چھپنا پڑا۔ کئی بار ان پر چھاپے مارے گئے، لیکن وہ کسی نہ کسی طرح بچ نکلے۔
یونان پہنچنے کے بعد، علی کو یونان کے دیہی علاقوں میں کئی ماہ گزارنے پڑے کیونکہ اس کے پاس آگے بڑھنے کا کوئی محفوظ راستہ نہیں تھا۔ اس نے پناہ گزینوں کے لیے مختص خیموں میں رہائش اختیار کی اور بعض اوقات لوگوں سے مدد مانگ کر کھانے کا انتظام کیا۔
اس دوران، اسے شدید نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ اپنے وطن اور خاندان سے دور تھا اور غیر یقینی صورتحال میں زندگی گزار رہا تھا۔
یونان میں علی کو گرفتار کر لیا گیا، اور اس نے وہاں ایک سال سے زائد عرصہ گزارا۔ ہر بارڈر پر اسے ایک نیا فون نمبر دیا جاتا تھا، جس پر ایجنٹ کی جانب سے پیسے ادا کرنے کا کہا جاتا تھا، اور بعد میں وہ نمبر بند کر دیا جاتا تھا۔ علی نے بتایا کہ جب یونان میں اسے گرفتار کیا گیا اور اس سے پیسے مانگے گئے، تو اس نے کہا: “میرے پاس پیسے نہیں ہیں اور نہ میرا کوئی آگے پیچھے ہے، بشک مجھے مار ڈالو۔”
یونان سے رہائی کے بعد، علی نے بلقان ممالک کے راستے اٹلی جانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے مختلف ممالک کی سرحدیں غیر قانونی طریقے سے عبور کیں، جن میں شمالی مقدونیہ، سربیا، اور سلووینیا شامل تھے۔ اس سفر میں وہ مسلسل پیدل چلتا رہا، چھپتا رہا، اور اکثر سرد موسم اور بارش میں بھی سفر کرتا رہا۔ اس کے پاس پیسے ختم ہونے لگے، اور اکثر اسے راتوں کو کھلے آسمان تلے سونا پڑا۔
علی بتاتے ہیں کہ اتنی مشکلات اور پر خطر راستوں سے پیدل سفر کرنا پڑا۔”مجھے ایک بار تو اسیے لگا کہ میرا یہ سفر موت پر ہی ختم ہو گا۔”
سلووینیا سے اٹلی کی سرحد عبور کرنا سب سے مشکل مرحلہ تھا۔ علی اور اس کے گروپ کو سرحد پار کرتے وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کیمپوں اور جنگلات میں راتوں کو چھپنا پڑا تاکہ سرحدی گارڈز کی نظروں سے بچ سکیں۔ بالآخر، ڈھائی سال کے طویل اور کٹھن سفر کے بعد وہ ایک ماہ قبل اٹلی کے شہر ٹریسٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
ٹریئسٹ پہنچنے پر، علی نے ایک پل کے نیچے پناہ لی، جہاں دیگر افراد بھی اسی کی طرح غیر قانونی طور پر اٹلی پہنچے ہوئے تھے۔ تمام لوگ کھلے آسمان تلے سخت سردی میں سڑک پر پڑے تھے۔ علی کے پاس نہ قانونی دستاویزات تھیں اور نہ ہی قانونی حیثیت حاصل کرنے کے بارے میں کوئی معلومات۔ علی بتاتا ہے کہ اسے بھتہ خوروں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
علی کہتا ہے:”میں نے اپنے حالات گھر والوں کو نہیں بتائے۔ میں اکیلا ہی ان حالات سے لڑتا رہا۔ ابھی بھی نہ میرے پاس کھانے کے لیے پیسے ہیں اور نہ ہی آگے کا کوئی راستہ نظر آ رہا ہے۔ میں نے قریبی پولیس اسٹیشن میں درخواست دی ہوئی ہے، لیکن ابھی تک میرا رہائش کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔”
منور سلطانہ، جو بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن سے وابستہ رہی ہیں اور انسانی اسمگلنگ کے مسئلے پر گہری نظر رکھتی ہیں، کہتی ہیں کہ: “پاکستان کو انسانی اسمگلنگ جیسے بین الاقوامی جرائم سے نمٹنے میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر مؤثر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ میں بدعنوانی انسداد اسمگلنگ کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ بدعنوان اہلکار انسانی اسمگلنگ کی سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
“انہوں نے مزید کہا:”عام لوگوں میں اسمگلنگ کے بارے میں آگاہی کا فقدان انسداد اسمگلنگ کی روک تھام کی کوششوں میں بڑی رکاوٹ ہے۔ متاثرین کو اکثر امدادی خدمات اور قانونی کارروائی کے طریقہ کار کا علم نہیں ہوتا۔ ناکافی تربیت کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے انسانی اسمگلنگ کے مقدمات کی شناخت اور اسمگلروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔”
پاکستان کی جغرافیائی حدود کے حوالے سے وہ کہتی ہیں:”پاکستان کی سرحدیں افغانستان اور ایران سمیت کئی ممالک سے ملتی ہیں، جو سرحد پار اسمگلنگ کو سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔ ان سرحدوں کی نگرانی اور حفاظت مشکل ہے۔ پڑوسی ممالک میں جاری تنازعات اور عدم استحکام اسمگلنگ کے مسائل کو مزید بڑھا دیتے ہیں، کیونکہ بے گھر افراد اسمگلروں کا آسان نشانہ بن جاتے ہیں۔”
مزید یہ کہ:”متاثرین کی امدادی خدمات کے لیے وسائل اور فنڈنگ ناکافی ہے، جیسے کہ پناہ گاہیں، بحالی کے پروگرام، اور قانونی مدد۔ پاکستان میں اسمگلنگ کے بارے میں محدود ڈیٹا موجود ہے، جس کی وجہ سے مؤثر پالیسیاں بنانا اور وسائل مختص کرنا مشکل ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے، لیکن دوسرے ممالک اور ایجنسیوں کے ساتھ مؤثر رابطہ قائم کرنے میں چیلنجز بدستور موجود ہیں۔”
انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کو قانونی مدد اور انصاف تک رسائی میں کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ:”انسانی سمگلنگ کے شکار بہت سے افراد کو اپنے قانونی حقوق کے بارے میں علم نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہ مدد مانگنے سے ہچکچاتے ہیں۔ مختلف زبان بولنے والے افراد عدالتوں اور قانونی اداروں کے ساتھ رابطہ کرنے میں مشکلات محسوس کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی مدد کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ زیادہ تر افراد سمگلنگ کی صورتحال سے باہر آنے میں خوف محسوس کرتے ہیں، خاص طور پر اسمگلر سے خطرہ ہوتا ہے۔”
https://urdu.thepenpk.com/?p=5433:مزید پڑھیے۔
انہوں نے مزید کہا:”قانونی عمل پیچیدہ ہو سکتا ہے، اور شکار افراد کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے یا کہاں جانا ہے۔ قانونی مدد حاصل کرنے کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، اور بہت سے شکار افراد معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ بعض اوقات معاشرتی یا خاندانی دباؤ کی وجہ سے افراد اپنی صورتحال کو سامنے لانے سے گریز کرتے ہیں۔ بعض ممالک میں قانونی نظام اتنا مضبوط نہیں ہوتا کہ وہ انسانی سمگلنگ کے کیسز کی مناسب تحقیقات اور انصاف فراہم کر سکیں۔ اگر شکار فرد مہاجر ہے تو اس کی قانونی حیثیت مزید پیچیدگی پیدا کرتی ہے، جس کی وجہ سے اسے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔”
منور سلطانہ کہتی ہیں:”انسانی سمگلنگ ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے بین الاقوامی، قومی، اور مقامی سطح پر کئی اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کو مضبوط قوانین بنانے کی ضرورت ہے جو انسانی سمگلنگ کے خلاف سخت سزائیں اور قانونی کارروائی متعارف کروائیں۔”
قوانین کے مؤثر نفاذ کے لیے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت اور وسائل میں اضافہ کیا جانا چاہیے. لوگوں میں انسانی سمگلنگ کے خطرات اور نشانیوں کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے عوامی مہمات چلانا ضروری ہے سمگلنگ کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے سرحدوں پر سخت نگرانی کا نظام قائم کیا جانا چاہیے -متاثرہ افراد کے لیے مدد اور بحالی کے پروگرام فراہم کرنا، تاکہ وہ سماجی و اقتصادی طور پر دوبارہ مستحکم ہو سکیں۔
بین الاقوامی اقدامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: “ممالک کے درمیان انسانی سمگلنگ کے خلاف مضبوط بین الاقوامی معاہدوں کا قیام ضروری ہے، جیسے کہ اقوام متحدہ کا بین الاقوامی منظم جرائم کے خلاف کنونشن۔
مختلف ممالک کے درمیان معلومات اور وسائل کے تبادلے کے لیے مضبوط تعاون کی ضرورت ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں انسانی سمگلنگ کے بڑے نیٹ ورک موجود ہیں۔ بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے ترقی پذیر ممالک کو مالی امداد فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کر سکیں۔ بین الاقوامی سطح پر انسانی سمگلنگ کے بارے میں تحقیق اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا ضروری ہے تاکہ اس مسئلے کا مؤثر جائزہ لیا جا سکے۔”
عصمت اللہ جونیجو، ایف آئی اے کے نمائندہ اور آج کل اٹلی کے شہر میلان میں تعینات ہیں، بتاتے ہیں:”پاکستان سے سالانہ کم از کم پچاس ہزار سے زائد لوگ غیر قانونی طریقے سے سمگلنگ کے ذریعے بیرون ملک جاتے ہیں۔
پاکستان میں سمگلنگ کے مسئلے
پاکستان میں سمگلنگ کے مسئلے کو روکنے کے لیے دو قوانین بنائے گئے ہیں: پریوینشن آف ٹریفکنگ ان پرسنز ایکٹ دو ہزار آٹھارہ اور مہاجرین کی اسمگلنگ کی روک تھام ایکٹدو ہزار اٹھارہ۔ ان قوانین کا بنیادی مقصد غیر قانونی اسمگلنگ کو روکنا اور اس میں ملوث ایجنٹس کو روکنا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے انسانی اسمگلنگ ایک بین الاقوامی منظم جرم ہے جس میں سات سے آٹھ ممالک شامل ہوتے ہیں۔ کچھ ممالک سو فیصد قوانین کا نفاذ کرتے ہیں، لیکن کچھ ممالک اس کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جس کی وجہ سے انسانی سمگلنگ کی روک تھام میں مشکلات آتی ہیں۔”
وہ مزید بتاتے ہیں:”پاکستان کی سرحد کئی ممالک سے ملتی ہے، اور یہاں باڈر مینجمنٹ کا کوئی خاص نظام نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ بلوچستان سے زیارتوں کے لیے ایران جاتے ہیں۔ پاکستان میں دو سوسے زائد باڈر کراس کرنے کے روٹس ہیں، جہاں کوئی خاص چیکنگ پوائنٹس نہیں ہیں، جنہیں ایجنٹس انسانی اسمگلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایف آئی اے غیر قانونی طریقے سے باہر بھجنے والے ایجنٹس کے خلاف کارروائی کرتا ہے، اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو آف لوڈ کیا جاتا ہے۔ جب ہم ایک ایجنٹ کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو اس پر بعد میں بھی نظر رکھی جاتی ہے کیونکہ یہ لوگ اپنا کام نہیں چھوڑتے ہیں۔”
انہوں نے کہا:”اس مسئلے کی روک تھام کے لیے قوانین سخت ہونے چاہییں۔ مذکورہ بالا قوانین کے تحت ایجنٹس ہی ملزم ہیں، جبکہ جو لوگ اپنی مرضی سے انہیں بڑی رقمیں دے رہے ہیں، انہیں وکٹم قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ لوگ بھی اتنے ہی اس کام میں ملوث ہیں جتنے ایجنٹس۔ لوگوں کو حکومت کے منظور شدہ اداروں سے ہنر سیکھنا چاہیے اور قانونی طریقے سے بیرون ملک جانا چاہیے۔”
عصمت اللہ جونیجو نے اٹلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا:”اٹلی ایسا ملک ہے جہاں سب کو پناہ دی جاتی ہے۔ بہت سے پاکستانی اپنے ملک میں بے روزگاری کی بلند شرح، کم اجرت اور ملازمت کے محدود مواقع کی وجہ سے بہتر معاشی مواقع تلاش کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یورپ میں زیادہ تنخواہ والی ملازمتیں ہیں، جو پاکستانیوں کو اسمگلنگ اور غیر قانونی نقل مکانی کا خطرہ مول لینے پر مجبور کرتی ہیں۔ بین الاقوامی ممالک کو بھی اپنی پالیسیاں سخت کرنے کی ضرورت ہے۔”
الویرا وقاص ایک فری لانس صحافی ہیں اور پنجاب کے شہر ساہیوال سے تعلق رکھتی ہیں