نوشہرہ: نوشہرہ کے قبرستان میں ایک نومولود بچی کو مبینہ طور پرزندہ دفن کرنے کی کوشش کی گئی، مگر قدرت نے اسے بچا لیا۔ اس دل دہلا دینے والے واقعے نے مقامی لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
ذرائع کے مطابق، نامعلوم افراد نے معصوم بچی کو مٹی تلے دفنانے کی کوشش کی، لیکن قبرستان میں فاتحہ خوانی کے لیے آئے کچھ افراد نے زمین سے ہلکی سی سرسراہٹ محسوس کی۔ جب قریب جا کر دیکھا تو ایک نومولود بچی مٹی میں دبی ہوئی زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی۔
و ہاں پر موجود لوگوں نے فوراً ریسکیو 1122 کو اطلاع دی ۔ موقع پر موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ جب ریسکیو اہلکاروں نے بچی کو نکالا، تو وہ حیران رہ گئے. کپڑے میں لپٹی ننھی کلی جیسے ہی روشنی میں آئی، اس نے اپنا بازو ہلایا۔ یہ لمحہ ایسا تھا جیسے زندگی نے موت کو شکست دے دی ہو۔
ریسکیو ٹیم نے فوری کارروائی کرتے ہوئے بچی کو مقامی اسپتال منتقل کیا، جہاں ابتدائی طبی امداد دی گئی۔ ڈاکٹروں کے مطابق، بچی کو بخار اور نمونیا لاحق تھا۔ تاہم، ایک ہفتہ زیر علاج رہنے کے بعد وہ مکمل صحت یاب ہو گئی، جبکہ اس کے والدین یا کسی رشتہ دار کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔
قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ایک مقامی عسکری اہلکار نے اس معصوم بچی کو گود لے لیا، تاکہ اسے ایک محفوظ اور بہتر زندگی دی جا سکے۔
یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ ہر طرف معصوم بچی کے لیے دعائیں کی جا رہی تھیں، اور ظالموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
واقعہ معاشرے کی بے حسی کو بے نقاب کرتا
مقامی رہنما رضا بابر نے کہا “یہ واقعہ معاشرے کی بے حسی کو بے نقاب کرتا ہے۔ اب بھی ایسے سنگدل موجود ہیں جو اپنی غلطیوں کا بوجھ معصوم جانوں پر ڈالنے سے نہیں چوکتے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے واقعات کے سدباب کے لیے سخت اقدامات کرے، کیونکہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کہانی صرف ظلم کی نہیں، بلکہ امید اور رحم دلی کی بھی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو اس بچی کو ایک محفوظ زندگی دینے کے لیے آگے آئے۔
نوشہرہ امن جرگہ کے چیئرمین نے اس واقعے کو جاہلیت کے دور کی یاد دلاتے ہوئے مقامی پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود ملزمان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ انہوں نے ریسکیو 1122، اسپتال کے عملے اور بچی کو گود لینے والے شخص کی تعریف کرتے ہوئے کہا:
“شکر ہے کہ کچھ نیک دل لوگوں نے اس معصوم کی زندگی بچائی، لیکن صوبائی حکومت اور پولیس کو چاہیے کہ ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کرے۔”
کیا ماضی میں بھی ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں؟
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ گزشتہ سال جولائی میں پشاور کے علاقے پھندو میں ایک سنگدل باپ نے اپنی تین سالہ بیٹی کو تیز دھار آلے سے بے رحمی سے قتل کر دیا تھا، جسے بعد میں پولیس نے گرفتار کر لیا۔
اسی طرح، اگست میں ضلع کوہاٹ کے علاقے خیرماتو میں ایک شخص رمضان نے اپنی نومولود جڑواں بیٹیوں کو پانی میں ڈبو کر جان سے مار دیا۔ تفتیش کے دوران قاتل باپ نے پولیس کو بتایا کہ وہ بیٹیوں کو ناپسند کرتا تھا، اسی لیے انہیں پانی کے ڈرم میں پھینک کر قتل کر دیا اور بعد میں دفنا دیا۔
ماہرین کے مطابق یہ واقعات معاشرتی بے حسی کی واضح تصویر پیش کرتے ہیں، جہاں معصوم جانوں کو سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لازم ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف سخت کارروائی کریں اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔