زہرمورہ, سانپ کا زہر زائل کرنے والا نایاب اور دلکش پتھر

اس پتھر سے دیدہ زیب زیورات، برتن اور سجاوٹی اشیاء بھی بنائی جاتی ہیں

0
جنید علی خان
انسان اور پتھر کا رشتہ صدیوں پرانا ہے۔ انسان نے پتھر ہی کے زمانے سے آج کے جدید دور تک کا سفر طے کیا ہے۔ یہ پتھر ہی تھا جس کے ذریعے انسان نے سردی سے بچنے کیلئے آگ لگانا سیکھا اور اسے زیورات کے طور پر بھی استعمال کیا۔ تہذیب و تمدن اس بات کے شاہد ہیں کہ انسان نے ہر دور میں پتھروں کو زیورات کیلئے استعمال کیا ہے۔چونکہ پاکستان بھی ایک زرخیر اور ان گنت وسائل سے مالا مال ملک ہے،یہاں کی زرخیز مٹی سے لے کر آبی وسائل، چار موسم اور معدنی ذخائر جیسی دولت دنیا کے کم ہی ممالک کو نصیب ہوئی ہے۔ ان وسائل میں نایاب، قیمتی اور نیم قیمتی پتھربھی شامل ہیں۔
انسان ان پتھروں کو نہ صرف زیورات کیلئے زاتی استعمال میں لاتا ہے بلکہ اب ان کا کاروبار بھی کیا جاتا ہے جبکہ اس صنعت سے وابستہ تاجر اسے نت نئے طریقوں کے ذریعے منافع بخش بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔
گلگت بلتستان میں قیمتی پتھروں کی کان کنی پر2019 میں  وزارت منصوبہ بندی وترقی کے تحت شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقوں میں تیس قسم کے قیمتی اور نیم قیمتی پتھر پائے جاتے ہیں۔ جن میں زمرد، روبی، ٹوپاز، جیڈ بھی شامل ہیں۔ ان کی سالانہ پیداوار چودہ لاکھ پچاس ہزار اور دوسو ٹن ہے۔ یہ قیمتی پتھرزیادہ تر شمالی علاقہ جات میں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش سے نکالے جاتے ہیں جن کی قومی و عالمی سطح پر کافی اچھی مانگ ہے۔
ان قیمتی پتھروں میں سے ایک قیمتی پتھر’زہرمورہ’ بھی ہے جو گلگت بلتستان کے علاقے سکردو کے قریب شگر کے مقام پر بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے مگر اس کی کان کنی حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ مقامی آبادی کے لوگ اپنے طور پر چھوٹے پیمانے پر اس کی کھودائی کرتے ہیں اور پھر اس سے مختلف قسم کی چیزیں بنا کر اس کا کاروبار کرتے ہیں۔
 شگر کے چند افراد نے بلتستان زہرمورہ ورکس کے نام سے زہر مورہ کا کام شروع کیا ہے۔ زہرمورہ کے پتھروں سے زیورات اور برتنوں کے علاوہ نمود ونمائش کا سامان بھی بنایا جاتا ہے۔ اس سے بننے والے برتن دیدہ زیب اور دلکش ہوتے ہیں۔ ملکی و غیر ملکی لوگ اس پتھر کی مصنوعات کو یکساں طور پر پسند کرتے ہیں۔ بیرون ملک سے آئے سیاح اسے حرز جاں لیتے ہیں۔
زہرمورہ ورکس کے ایم ڈی شکور علی نے نومبر میں اسلام آباد کے لوک ورثہ قومی میلے میں اس ہری رنگت والے پتھر ‘زہرمورہ’ کی ترویج کیلئے سٹال بھی لگایا تھا۔
سٹال میں سجے میز پرلاکٹ، بازوبند اورانگوٹھیاں پڑی ہوئی تھیں جبکہ سٹال کے اندر پانی پینے کے گلاس، جگ، کیتلی اورچائے پینے کے پیالے پڑے ہوئے تھے اسی طرح ڈیکوریشن کا سامان بھی موجود تھا۔ یہ سب سامان اس ہری رنگت والے قیمتی پتھر زہرمورہ کو تراش کر بنایا گیا تھا۔
شکورعلی نے بتایا کہ شمالی علاقوں میں پائے جانے والے قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی طرح ‘زہرمورہ’ بھی ایک قیمتی پتھر ہے جو شگر میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس پتھر کو تراش کر مختلف قسم کی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ ان میں عام کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر زیورات یا ڈیکوریشن کے طور پر استعمال ہونے والی چیزیں شامل ہیں۔زہرمورہ سے بنا چائے کا سیٹ چھ پیالوں، چھ پرچوں، شکردانی، دودھ دانی، چائے دانی اور ایک کیتلی پر مشتمل ہوتا ہے جو پینتیس ہزار روپے سے لے کر اڑتیس ہزار روپے میں فروخت کیا جاتا ہے۔ واٹر سیٹ ایک عدد جگ اور چھ گلاسوں پر مشتمل ہوتا ہے جو بتیس ہزارروپے میں بیچا جاتا ہے جبکہ ایک بازوبند کی قیمت بارہ سو، بالیوں کی آٹھ سو، لاکٹ کی تین سو سے پانچ سو اور انگوٹھی کی قیمت پانچ سو روپے تک ہوتی ہے۔
زہرمورہ کے کاروبار سے وابستہ جمیل عباس کا کہنا ہے کہ اس کی مثال انگوٹھیوں میں لگنے والے قیمتی پتھر’فیروزہ’ کی سی ہے، ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ اس پتھر کی انگوٹھی پہنے کیوں کہ یہ دیکھنے میں بڑا دلکشں ہوتا ہے۔ زہرمورہ کو بھی لوگ اس کے قیمتی، ہری رنگت اور دلکش ہونے کی وجہ سے پسند کرتے ہیں اور اس کے شوقین افراد چاہتے ہیں کہ وہ اس پتھر کے زیورات پہنیں، اس کی بنی ہوئی ڈیکوریشن مصنوعات خریدیں یا پانی اور چائے پینے کیلئے اس کی بنی ہوئی اشیاء استعمال کریں۔اس قیمتی پتھر کا استعمال صرف زیورات یا ڈیکوریشن تک محدود نہیں بلکہ اس حوالے سے مشہور ہے کہ یہ سانپ کے زہر کو بھی زائل کردیتا ہے۔ نایاب، قیمتی، دلکش اورسانپ کے زہرکے اثر کوزائل کرنے کی تاثیر زہرمورہ کی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے گاہک اسکو خریدنے میں دلچسپی لیتے ہیں تاہم حکومتی سرپرستی اور اس صنعت میں معاونت نہ ہونے کی وجہ سے اس قیمیتی پتھر سے استفادہ نہیں کیا جا سکا ہے۔
زہرمورہ و دیگر معدنی ذخائر سے استفادہ کرنے کیلئے یہاں جیولوجیکل سروے کرنے اور جدید صنعتی طریقوں کو رواج دینے کی اشد ضرورت ہے

پاکستان جیم سٹون اور منرل ایسوسی ایشن کے ایک ممبر کا کہنا ہے کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زہر مورہ کی کھودائی تو کرتے ہیں تاہم اس کی پیداوار کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ شگر میں پائے جانے والے اس پتھر کی کان کنی اوراس سے استفادہ کرنے کا بندوبست کیا جائے تواس کی صنعت  کوقومی اور بین الاقوامی سطح پرفروغ دیا جا سکتا ہے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما اور گلگت بلتستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف امجد حسین کا کہنا ہے کہ زہرمورہ سمیت بلتستان میں قیمتی ذخائر کے بے پناہ وسائل پائے جاتے ہیں لیکن صوبے کے وسائل پر صوبے کا اختیار تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے یہاں کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے میں بڑی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زہرمورہ و دیگر معدنی ذخائر سے استفادہ کرنے کیلئے یہاں جیولوجیکل سروے کرنے اور جدید صنعتی طریقوں کو رواج دینے کی اشد ضرورت ہے۔
گلگت بلستان میں نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کیلئے رپانی فاؤنڈیشن کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ فاؤنڈیشن قیمتی پتھروں کی پالیشنگ اور کٹنگ کے سلسلے میں نوجوانوں کی تربیت کرتی ہے تاکہ وہ بہتر انداز میں کام کر سکیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ زہرمورہ سمیت ملک کے شمالی علاقوں میں پائے جانے والے نایاب اور قیمتی پتھروں کو پہاڑوں سے نکالے جانے اور ان کی دلکشں اشیاء و زیورات بنانے کا حکومتی سطح پر اہتمام کیا جائے اور گلگت بلتستان کے مقامی نوجوانوں کوبھی ہنرمند بنایا جائے۔ زہرمورہ کی بنی ہوئی اشیاء کو میوزیم میں رکھا جائے اور ان کی برآمد بڑھائی جائے اورسکردو میں مختلف مقامات پر ان قیمتی پتھروں سے ایسی تعمیرات کی جائیں جو دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کریں۔ یوں پاکستان کے شمالی علاقوں کے ذخائر سے بہتر استفادے کی بدولت نہ صرف ان علاقوں بلکہ ملک کی ثقافت اور معیشت کو بھی سہارا ملے گا۔
Leave A Reply

Your email address will not be published.