اسلام آباد:پاکستان نے عالمی برادری کی توجہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی طرف مبذول کرادی۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستانی مستقل مندوب منیر اکرم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) دہشت گرد تنظیموں کے لیے چھتری تنظیم بن رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجود بیس سے زائد دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہیں۔
افغانستان میں موجود خطرناک دہشت گرد تنظیمیں کونسی ہیں؟
منیر اکرم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان خطرات میں القاعدہ، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسی تنظیمیں شامل ہیں۔
ان تنظیموں نے پاکستان اور پورے خطے کی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان میں ٹی ٹی پی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے جو افغانستان میں سرگرم ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں سے ملکی سلامتی پر اثرات
پاکستانی مندوب نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان کی سرحدی محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان پر حملے کر رہی ہے۔
ان حملوں میں پاکستانی فوجی، شہری اور ریاستی ادارے نشانہ بن چکے ہیں، جس کے نتیجے میں سیکڑوں جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔
مزید پرئیے:https://urdu.thepenpk.com/?p=6429
بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کی سرگرمیاں
منیر اکرم نے مزید کہا کہ بی ایل اے اور مجید بریگیڈ بھی پاک چین اقتصادی تعاون کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں، جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے سنگین خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔
افغان عبوری حکومت کی ناکامی
انہوں نے افغان عبوری حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ خطے کو لاحق ان خطرات سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔
پاکستانی مندوب نے یہ مزید کہا کہ ٹھوس شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کابل حکام ان حملوں کو برداشت اور ان کی سرپرستی بھی کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ پر مایوسی
پاکستانی مندوب نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی رپورٹ میں دہشت گردی کے تذکرے کے فقدان پر شدید حیرت اور مایوسی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوامِ متحدہ میں مناسب لائحہ عمل تشکیل دینے کے لیے مشاورت کا آغاز کرے گا۔
پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف اقدامات کا عزم
منیر اکرم نے کہا کہ اس حوالے سے دوحہ عمل کے تحت انسدادِ دہشت گردی پر ورکنگ گروپ قائم کیا جائے گا۔
پاکستان دہشت گردی کے خطرات کو ختم کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا اور یہ اس کا حقِ دفاع ہے جو سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کے تحت تسلیم شدہ ہے۔