بینک میں زکوٰۃ کی کٹوتی: جائز ہے یا ناجائز؟

نیوزڈیسک

0

اسلام آباد:بینک کو لوگوں کی رقوم سے زکوٰۃ کی کٹوتی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی چند اہم وجوہات ہیں، جن میں سے پہلی وجہ یہ ہے کہ حکومت کو نقدی سے زکوٰۃ وصول کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، اور نہ ہی وہ لوگوں کی اجازت سے یہ عمل انجام دیتی ہے۔

زکوٰۃ کی کٹوتی کی تفصیل کیا ہے؟

جب حکومت زکوٰۃ وصول کرتی ہے، تو یہ عمل جبراً کیا جاتا ہے اور مالکان کی رضامندی نہیں لی جاتی۔

اسی طرح، بینک بھی زکوٰۃ کی کٹوتی کرتے وقت اس کی ضروری تفصیلات کا خیال نہیں رکھتا، جس سے درست مصرف میں اس کا استعمال ممکن نہیں ہوتا۔

مزید پرئیے:https://urdu.thepenpk.com/?p=6592

زکوٰۃ کاٹنے والے نفع کا مسئلہ

بینک کی زکوٰۃ کی کٹوتی عام طور پر ان کھاتوں سے کی جاتی ہے، جن پر نفع ملتا ہے۔
یہ نفع دراصل سود ہوتا ہے، اور اسی سود کی رقم کا ایک حصہ زکوٰۃ کے نام سے کاٹ لیا جاتا ہے۔

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت سودی رقم میں سے کچھ روک لیتی ہے اور کھاتہ دار کو کم نفع دیتی ہے۔

زکوٰۃ کے مصرف کا مسئلہ

جو رقم بینک زکوٰۃ کے نام سے کاٹتا ہے، وہ درست مصرف میں نہیں استعمال کی جاتی۔ اس لیے بینک کی زکوٰۃ کی کٹوتی سے اصل میں زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔

ان تمام وجوہات کی بناء پر یہ کہنا درست ہوگا کہ بینک کے ذریعے کٹوتی کی جانے والی زکوٰۃ اسلامی اصولوں کے مطابق صحیح نہیں ہے، اور اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.