اسلام آباد: پاکستان میں باونڈیڈ لیبرایک اہم مسئلہ ہے جو خاص طور پر دیہی علاقوں میں پسماندہ کمیونٹیزکومتاثرکرتا ہے۔
جدید غلامی کی یہ شکل زراعت، اینٹوں کے بھٹوں، قالین کی بُنائی، ماہی گیری اور کان کنی جیسے شعبوں میں روزانہ کی بنیاد پر نطرآتی ہے۔
مجبورافراد اکثراپنی ضرورتوں کو پورا کر نےکے لیے چھوٹے چھوٹے قرض لے کر غلامی کے اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ یہ قر ضے مجبورافراد زیادہ ترزمینداروں، اینٹوں کے بھٹہ مالکان، یا ٹھیکیداروں سے اپنے بچوں کی شادیوں اور روذمرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لےلیتے ہیں۔
تاہم یہ قرضے بہت زیادہ شرح سود اور دھوکہ دہی والے اکاؤنٹنگ طریقوں کے ساتھ دیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ قرض میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
نتیجہ کے طور پر وہ قرضوں کےایک ایسے جال میں پھنس جاتے ہیں جسے توڑنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہےاوریہ قرضے کارکنوں اور بعض اوقات پورے خاندانوں کو مسلسل غلامی کے جال میں جکڑے رکھتے ہیں۔
منظم جرائم کے نیٹ ورکس جنہیں اکثر ‘مافیاز’ کہا جاتا ہے، پاکستان میں باونڈیڈ لیبر کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ مافیاز دیہاتوں سےغریب افراد کو مزدوری پر بھرتی کرنے کے لیے سا زشوں کا استعمال کرتے ہیں، منصفانہ اجرت اور اچھے حالات کا وعدہ کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ان افراد کو اکثر دور دراز مقامات پر اسمگل کیا جاتا ہے اور انہیں ان کے سپورٹ نیٹ ورکس سے بلکل الگ کر دیا جاتا ہے۔
یہ مافیاز بلند شرح سود پر قرضے فراہم کرتے ہیں اورواپسی کو یقینی بنانے کے لیے دھمکیوں اور تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کو قرضے دیتے ہیں جو ان کے بنا یے ہوے اصولوں پر عمل کرتے ہیں، ان سے ڈرتے اور جسمانی تشدد بردا شت کرتے ہیں۔ جوافراد ان کے استحصال کےطریقوں کی مزاحمت کرتے ہیں یہ ان لوگوں کو نوکریاں نہیں دیتے یا پھر ان کو تشد ت کا نشانہ بناتے ہیں۔
باونڈیڈ لیبر سسٹم (ابولیشن) ایکٹ آف 1992 جیسی قانونی دفعات کی موجودگی کے باوجود، نفاذ ایک اہم چیلنج ہے۔
یہ قانون باونڈیڈ لیبر کو ملک سے ختم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، جس کا مقصدباونڈیڈ لیبر کو آزاد کرنا اور انھیں ان کا بنیادی حق دینا تھا جب کہ کسی کو بھی اس کے لے پابند کر کے اسے مجبور کرنے کو قابل سزا جرم بنایا گیا تھا۔
تاہم اس قانون کو عملی جامہ پہنانے میں وسائل کی کمی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکافی تربیت اوروسیع پیمانے پر بدعنوانی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ مزید برآں بہت سے مزدور اپنے حقوق سے ناواقف ہیں اور ان کو قانونی مدد تک محدود رسائی حاصل ہے۔
اقبال نامی شخص ایک ایسا ہی مزدور تھا جس نے اپنی کم عمری ایک مقامی کمپنی سے اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے قرض لیا۔ قرض کی ادائیگی کے لیے اقبال کو اس فیکٹری میں کام کرنے کے لیے بھجا گیا۔ جو کہ باونڈیڈ لیبر کی ایک شکل تھی۔ اقبال نے برسوں اس فیکٹری میں نامناسب حالات می دن اور رات سخت محنت کی، وہ اکثر دن میں چودہ چودہ گھنٹے تک بھی کام کرتا تھا۔
آخرکا رحالات سے تنگ آکر وہ فیکٹری سے فرار ہو گیا۔ اس نےباونڈیڈ لیبر لبریشن فرنٹ (BLLF) سے مدد طلب لی۔
اقبال مسیح، پاکستان کا ایک نوجوان لڑکا تھا- جسں نے چائلڈ لیبراورباونڈیڈ مزدوروں کے خلاف جنگ میں ایک عالمی کرداراداکیا۔ 1983 میں مریدکے ایک غریب عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا-جسں کی وجہ اقبال مسیح کو بہت مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑا-
ان کی حمایت کے ساتھ اقبال نے قالین کی صنعت میں انہیں اور دوسرے بچوں کو درپیش مشکلا ت کے بارے میں بات کرنا شروع کی۔
اس کی ہمت اور فصاحت نے بچوں کے مزدوروں کی حالت زار کی طرف بین الاقوامی توجہ مبذول کرائی، جس سے ان کے جسمانی استحصال اور نفسیاتی صدمے دونوں پر روشنی ڈالی گئی۔
اقبال کی فعالیت نے اہم تبدیلیوں کو جنم دیا۔ ان کی کوششوں نے عالمی سطح پر بیداری بڑھانے اور پاکستانی حکومت پر لیبر قوانین کے نفاذ اورباونڈیڈ لیبر کے خاتمے کے لیے دباؤ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ان کی بہادری کی وجہ سے اقبال کو 1994 میں ریبوک ہیومن رائٹس ایوارڈ سمیت متعدد بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ اقبال کی زندگی اس وقت منقطع ہو گئی تھی. جب 1995 میں انہیں بارہ سال کی عمر میں قتل کر دیا گیا۔ اس کی موت کے ارد گرد کے حالات متنازعہ ہیں- بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ باونڈیڈلیبر کے جمود سے فائدہ اٹھانے والوں کے ذریعہ ترتیب دیا گیا تھا۔
ان کی بے وقت موت کے باوجود اقبال کی میراث برقرار ہے۔ اس کی کہانی دنیا بھر میں سرگرم کارکنوں، تنظیموں اور حکومتوں کو چائلڈ لیبر کے خلاف لڑنے اور بچوں کے حقوق کو برقرار رکھنے کی ترغیب دیتی ہے اوران لوگوں کی ہمت اور جوش وجزبے کو صراہتی ہے اور اقبال کی اس کہانی سے ان کو بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں-ا
نصاف کے لیے ان کے عزم اور چائلڈ لیبر کے خلاف اٹل لڑائی ہے انسانی حقوق کی عالمی تحریک پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
اقبال مسیح کی زندگی انسانی روح کی لچک اور ایک پرعزم فرد کے دنیا پر پڑنے والے اثرات کی ایک پُرجوش یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے۔
اس کی میراث صرف ایک المیہ نہیں ہے بلکہ امید اور تبدیلی بھی ہے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے جاری کوششوں کو آگے بڑھا یا جا ییں تا کہ کوئی بچہ دوبارہ باونڈیڈلیبر کی با توں کا شکار نہ ہو۔
باونڈیڈ لیبر پاکستان میں انسانی حقوق کا ایک اہم مسئلہ ہےجس کی جڑیں سماجی و اقتصادی تفاوت میں گہری ہوی ہیں اور منظم جرائم کے نیٹ ورکس کے ذریعے برقرار ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں مضبوط قانون کا نفاذ، معاشی بااختیار بنانا، اور بیداری میں اضافہ شامل ہے۔
جس کی وجہ سے قرضوں کی بندشوں کو توڑنے اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے حکومتی اداروں، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی تنظیموں کے درمیان تعاون بہت ضروری ہے۔
صرف متحد اور مستقل کوششوں سے جدید دور کی غلامی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔