خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کیوں کم ہو رہا ہے؟
شازیہ محبوب/فیصل سلیم
اسلام اباد/خانیوال:عالمی سطح پر خواتین کی سماجی اور اقتصادی شراکت کو یقینی بنانے کے لئے اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں، مگر پاکستان میں خواتین، جو آبادی کا تقریباً 49 فیصد ہیں، اپنے ووٹ کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔
نتیجتاً، خواتین کا ووٹ ڈالنے کا عمل کمزور ہے اور ان کی سیاسی نمائندگی میں کمی آ رہی ہے۔
فافن کی رپورٹ کے مطابق، فروری 2024 کے پاکستان کے 12ویں عام انتخابات میں تقریباً 60.6 ملین ووٹرز نے حصہ لیا، جو کہ 2018 کے انتخابات کے مقابلے میں 6 ملین زیادہ ہیں، مگر ووٹر ٹرن آؤٹ کا تناسب 52 فیصد سے کم ہو کر 47 فیصد رہ گیا۔
گیلپ پاکستان کے مطابق، 58.9 ملین خواتین ووٹرز میں سے صرف 41.6 فیصد نے ووٹ ڈالا، جو کہ 2018 کے انتخابات کے مقابلے میں 5 فیصد کم ہے۔
یہ تشویشناک ہے کہ خواتین ووٹرز کی تعداد میں اضافے کے باوجود، ان کا ٹرن آؤٹ کم ہو رہا ہے۔
بسم اللہ ارم، سابقہ ممبر ضلع کونسل خانیوال اور غیر سرکاری تنظیم روشن راہیں کی صدر، خواتین ووٹر ٹرن آؤٹ میں کمی کی وجہ ووٹ کی منتقلی میں تاخیر کو قرار دیتی ہیں۔
ان کے مطابق، پدرانہ سماجی سوچ اور ووٹ کی منتقلی کے ادارہ جاتی عمل کے درمیان ہم آہنگی کی کمی اس تاخیر کا سبب بنتی ہے۔
کرسچن کالونی خانیوال کی رہائشی 27 سالہ کائنات نے بتایا کہ 2022 کے ضمنی انتخابات کے دوران وہ اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے تیار تھیں، مگر ان کا ووٹ ابھی تک ان کے والدین کے آبائی علاقے چیچہ وطنی میں رجسٹرڈ تھا۔
نتیجتاً، وہ ووٹ ڈالنے سے قاصر رہیں۔ ان کے شوہر کو ووٹ کی خانیوال منتقلی کے لئے متعدد بار ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن جانا پڑا۔
کائنات کے خیال میں، انتخابی عملے کی کارکردگی میں بہتری اور ووٹ کی منتقلی کے عمل کو آسان بنانے سے مستقبل میں ایسے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔
شناختی کارڈ کے متعلق مسائل
بسم اللہ ارم نے قدامت پسند خاندانوں میں خواتین کے ووٹ رجسٹریشن کے عمل میں درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔
ان کے مشاہدات کے مطابق، ایسے خاندانوں میں اکثر لڑکیوں کے لئے شناختی کارڈ بنوانا مشکل ہوتا ہے۔ انہیں عموماً شناختی کارڈ کے لئے شادی یا بچوں کی پیدائش کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
جب پہلی بار خواتین کے شناختی کارڈ جاری ہوتے ہیں، تو ووٹ خودبخود رجسٹر ہو جاتا ہے، لیکن شادی کے بعد نئے حلقے میں ووٹ کی منتقلی کے لئے ضروری ڈاکیومنٹیشن کی کمی کے باعث مشکلات پیش آتی ہیں۔
اگر شادی کے بعد شناختی کارڈ بنایا جائے تو طلاق کی صورت میں عورت کا ووٹ اُس کے سسرال کے حلقے میں ہی برقرار رہتا ہے۔
مزید یہ کہ اگر عورت دوبارہ شادی کرتی ہے، تو اگر پچھلی طلاق اور نئی شادی کا ریکارڈ درست طریقے سے اپ ڈیٹ نہ ہو، تو ووٹر رجسٹریشن میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، جس سے خواتین کے لئے ووٹنگ کے نظام میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
ایسی صورت حال میں بہت سی خواتین طلاق کے بعد اپنی شناخت کی حیثیت کو اپ ڈیٹ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں اور اس وجہ سے انتخابی عمل میں کم دلچسپی دکھاتی ہیں۔
علاوہ ازیں، 50 سال سے زائد عمر کی خواتین کے ووٹنگ میں شامل ہونے کے حوالے سے ایک عمومی سماجی رویہ یہ ہے کہ انہیں اس عمل سے دور رکھا جائے، جو کہ صنفی تعصب اور سماجی ہچکچاہٹ کی عکاسی کرتا ہے اور خواتین کے کم ووٹ ڈالنے کے رجحان کو فروغ دیتا ہے۔
ہجرت: ووٹنگ کو درپیش دوسرا مسئلہ
خواتین کی ووٹنگ شرح میں کمی کے ایک اور اہم عنصر میں خاندانوں کی نقل مکانی شامل ہے۔
جب ایک خاندان ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوتا ہے، تو مرد عام طور پر اپنے رہائشی پتے میں تبدیلی کرتے ہیں اور ووٹ کو بھی منتقل کر لیتے ہیں۔
لیکن خواتین اکثر اس بات کی طرف توجہ نہیں دیتیں یا اسے ترجیح نہیں دیتیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر گھر کے سربراہ کا ووٹ منتقل ہو گیا ہے تو پورے خاندان کا ووٹ بھی خودبخود نئے حلقے میں منتقل ہو جائے گا۔
اس کے باوجود، ہر فرد کی سماجی حیثیت، چاہے وہ شادی شدہ ہو، بیوہ، طلاق یافتہ، یا غیر شادی شدہ ہو، اس کو نادرا میں علیحدہ طور پر اپ ڈیٹ کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ ووٹر کے درست اندراج کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ مسئلہ انتخابات میں خواتین کی شرکت کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
گھریلو خواتین کے لیے چیلنجز
بسم اللہ، ارم نے الیکشن کمیشن پاکستان کی سہولیات اور اقدامات کے بارے میں بروقت معلومات تک رسائی میں گھریلو خواتین کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گھریلو خواتین اکثر قانونی امور کے لیے مردوں کی مدد پر انحصار کرتی ہیں، مثلاً شناختی کارڈ حاصل کرنا یا ووٹ کی منتقلی کو یقینی بنانا۔ لیکن وہ مرد اکثر خواتین کی سیاسی شراکت داری میں معاونت فراہم نہیں کرتے۔ اس کے پیش نظر، کمیشن کو چاہیے کہ خواتین کے لیے گھر بیٹھے سہولتیں فراہم کرے۔
بسم اللہ، ارم نے مزید بتایا کہ خانیوال میں لڑکوں کے سکولوں میں انتخابی معلومات کے ڈسپلے سنٹر قائم کیے گئے ہیں، جبکہ مقامی الیکشن کمیشن کے دفتر میں خواتین کا عملہ موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے خواتین کی ووٹنگ ٹرن آؤٹ پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔