اشتیاق احمد
حال ہی میں صدر زرداری نے ایران کے سفیر کے ساتھ ملاقات کے دوران دنوں ممالک کے درمیان سیاسی اور معاشی تعلقات بہتر بنانے کی دعوت دی اس سے باخبر کے یہ امریکہ کی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے – صدر زرداری کء پیش رفت یقینا جرت مندانہ قدم ہے۔
جب سے ایران نے اپنی ایٹمی صلاحیت کو بڑھانے کی سعی کا اعلان کیا تب سے امریکہ اور ایران کے تعلقات میں تناؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایران کی طرف سے یقین دہانی کے باوجود کہ اس کی یہ کاوش پرامن مقاصد کے لیے ہے، امریکہ نے اپنا دباؤ جاری رکھا اور ایران کے خلاف پابندیاں لگانے کی مہم کی سربراہی کی –
درحقیقت، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد کی دہائیوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات کبھی بھی مثبت نہیں رہے۔ امریکہ نے ایران کو ایک بدمعاش ریاست، اندرون ملک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عالمی سطع پر دہشت گردی کے ہوا دینے کا مجرم قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے۔
ایران پر یہ بھی الزام لگایا کہ افغانستان میں امریکہ اور اتحادیوں کے خلاف افغانیوں کی مسلسل پشت پناہی کرتا رہا –
قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکہ نے اسرائیل پر حماس کے تازہ ترین حملے کا ذمہ دار بھی ایران کو ٹھہرایا جس کے نتیجے میں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا اور غزہ میں اسریل کو فلسطینی کی نسل کشی پر اکسایا۔
امریکہ ایران کو بدنام کرنے اور اسے کمزور کرنے کا ہر موقع تلاش کرتا رہتا ہے – وہ نہ صرف ایران کے خلاف موجودہ پابندیوں کا معمار ہے بلکہ معمولی سے موقع ملنے پر ایران کے خلاف براہ راست فوجی کارروائی کرنے پر تیار ہو جاتا ہے
لہٰذا، امریکی مخالفت کے باوجود، صدر زرداری کی دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعلقات مضبوط بنانے کی کوشش جرات مندانہ قدم ہے۔
ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے کا معاملہ بنیادی طور پر امریکی مخالفت کی وجہ سے التوا کا شکار رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی مخالفت کا سلسلہ جاری رہے گا لیکن پاکستان کو امریکی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔
یہ پاکستان کے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم کا واضع اعلان ہوگا۔ اور چین اور افغانستان کی یقین دہانی کے لیئے یہ ایک ٹھوس اشارہ ہو گا کہ پاکستان آزادانہ طور پر کام کرنے اور تعلقات کو استوار کرنے کا پختہ اردہ رکھتا ہے.
اس سے سرحدوں پر امن اور اعتماد کی فضا پیدا ہو گی، باہمی تجارتی،ثقافتی اور سماجی روابط کو مضبوط بنانے کے روابط کو فروغ ملے گا۔ ہوسکتا ہے کہ صدر زرداری اپنی مذہبی وابستگی اور سیاسی ٹھنڈے مزاج کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے زیادہ موزوں ہوں۔ دونوں فریقوں کے لیے ایسا کرنے کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔