شبِ معراج کی فضیلت: نبی ﷺ کا معراج کے سفر کا تاریخی پس منظر
شبِ معراج، جو ستائیس رجب کو منائی جاتی ہے، نبی اکرم ﷺ کا عظیم سفر تھا جس میں اللہ سے ملاقات، نماز کا تحفہ، اور امت کے لیے تین قیمتی تحفے، بشمول معافی کا وعدہ، دیے گئے۔
اسلام آباد:شبِ معراج، رحمتوں اور برکتوں سے معمور رات، آج دنیا بھر میں مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جائے گی۔
ملک بھر کی مساجد، بشمول راولپنڈی اور اسلام آباد، کو خوبصورتی سے سجا دیا گیا ہے۔
اس بابرکت رات کو مساجد میں چراغاں، خصوصی محافل، اور عبادات کا اہتمام ہوگا، جہاں علمائے کرام اور مقررین واقعۂ معراج اور اس کی فضیلت پر روشنی ڈالیں گے۔
ستائیس رجب المرجب کی اس رات نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کو معراج کا عظیم شرف عطا ہوا۔
حضرت جبرائیلؑ، براق لے کر سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ، آپ کا رب آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔
اس مقدس سفر میں آپ ﷺ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تشریف لے گئے، جہاں تمام انبیائے کرام کی امامت فرمائی، اور پھر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے لے جائے گئے۔
اس سفر میں جنت اور دوزخ کا مشاہدہ بھی کرایا گیا، اور اسی دوران نماز کا تحفہ عطا کیا گیا۔
شب معراج کے اہم واقعات کونسے ہیں؟
رجب المرجب اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مہینوں، دنوں، اور راتوں کو مختلف فضیلتوں اور برکتوں سے نوازا ہے۔
تاہم، ستائیس رجب المرجب کی رات کو دین اسلام میں خاص اہمیت حاصل ہے، کیونکہ اسی رات اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اپنے پاس بلا کر اپنا دیدار کرایا۔
عربی زبان میں “معراج” کا مطلب ایک ایسا وسیلہ یا ذریعہ ہے جس کے ذریعے بلندی کی طرف چڑھا جائے، اسی لیے سیڑھی کو بھی “معراج” کہا جاتا ہے۔
شبِ معراج کے دوران رسول اکرم ﷺ نے حضرت جبرائیلؑ کو ان کی اصل بارعب صورت میں دیکھا۔
ایک روایت کے مطابق، آپ ﷺ نے حضرت جبرائیلؑ سے دریافت کیا کہ ہر آسمان پر اہلِ آسمان نے آپ کا خیرمقدم اور مسرت کا اظہار کیوں کیا۔
اس سفر میں، آپ ﷺ جسم اور روح کے ساتھ آسمانوں کی بلندیوں پر پہنچے، یہاں تک کہ اس مقام سے بھی آگے تشریف لے گئے جہاں خالقِ کائنات اپنے فیصلے صادر فرماتا ہے۔ اس مقام پر ربِ کائنات نے آپ ﷺ کو وحی فرمائی۔
شبِ معراج میں نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کے سر پتھروں سے توڑے جاتے تھے، لیکن وہ پھر دوبارہ درست ہوجاتے۔
حضرت جبرائیلؑ نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو فرض نماز ادا کرنے میں غفلت برتتے تھے۔
آپ ﷺ نے کچھ لوگوں کو دیکھا جو اپنے آگے پیچھے پیوند لگے کپڑوں میں چر رہے تھے جیسے جانور چرتے ہیں، اور جہنم کے پتھر کھا رہے تھے۔
ان کے متعلق جبرائیلؑ نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے۔
اسی طرح، آپ ﷺ نے ایسے لوگوں کا مشاہدہ کیا جن کے سامنے پکی ہوئی پاکیزہ ہانڈی تھی، لیکن وہ کچا اور ناپاک گوشت کھا رہے تھے۔
حضرت جبرائیلؑ نے وضاحت کی کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جائز بیویوں کو چھوڑ کر ناجائز تعلقات قائم کیے، اور اسی طرح وہ عورتیں بھی جو اپنے پاکیزہ شوہروں کو چھوڑ کر بدکاری میں مبتلا ہوئیں۔
آپ ﷺ کا گزر ایک لکڑی کے پاس سے ہوا، جو ہر گزرتی شے کو چاک کر دیتی تھی۔
جبرائیلؑ نے بتایا کہ یہ آپ ﷺ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو راستے کاٹتے اور لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں۔
ایک اور منظر میں، حضور ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو بہت زیادہ لکڑیاں جمع کر رہا تھا، لیکن انہیں اٹھا نہیں سکتا تھا۔
جبرائیلؑ نے بتایا کہ یہ وہ شخص ہے جو لوگوں کی امانتیں جمع کرتا، لیکن ان کی ادائیگی نہیں کرتا تھا۔
آپ ﷺ نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچی سے کاٹے جاتے تھے، لیکن وہ دوبارہ صحیح ہوجاتے۔
یہ وہ مقررین تھے جو فتنہ پھیلاتے اور اپنے کہے پر عمل نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح، حضور ﷺ نے ایسے لوگوں کا مشاہدہ کیا جن کے منہ کھولے جاتے اور آگ کے گولے ان کے منہ میں ڈالے جاتے، جو نیچے سے نکل جاتے۔ یہ وہ لوگ تھے جو یتیموں کا مال ناجائز طریقے سے کھاتے تھے۔
مزید پرئیے:https://urdu.thepenpk.com/?p=5848
جب آپ ﷺ نے جہنم کا مشاہدہ کیا تو دیکھا کہ وہاں زیادہ تعداد عورتوں کی تھی۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اپنی ناشکری اور شوہروں کی احسان فراموشی کی وجہ سے ہے۔
شبِ معراج کی صبح، آپ ﷺ نے واقعہ معراج حضرت ام ہانیؓ سے بیان کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ حضور ﷺ یہ واقعہ اپنی قوم کے سامنے نہ بیان کریں، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم، میں ضرور بیان کروں گا۔
جب آپ ﷺ نے مشرکین مکہ کے سامنے واقعہ معراج بیان کیا تو انہوں نے استہزاء کیا۔
ایک ضعیف الایمان شخص تو مرتد بھی ہوگیا، لیکن سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا کہ اگر آپ ﷺ نے یہ فرمایا ہے تو یہ سچ ہے، اور اس دن سے آپ کا لقب “صدیق” قرار پایا۔
کفار نے حضور ﷺ سے مسجد اقصیٰ کے اوصاف کے بارے میں سوالات کیے۔ حالانکہ آپ ﷺ نے اس سے پہلے مسجد اقصیٰ کو نہیں دیکھا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے حجابات اٹھا دیے، اور حضور ﷺ نے مسجد کے ایک ایک دروازے اور مقام کی تفصیل درست بیان کی، جس پر کفار کو تسلیم کرنا پڑا کہ آپ ﷺ نے سچ فرمایا ہے۔
رجب کی پہلی تاریخ کو سیدنا نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے، چار تاریخ کو جنگ صفین کا واقعہ پیش آیا، ستائیسویں شب کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جسمانی معراج کا شرف پایا، اور اٹھائیسویں تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔
معراج کیسے ہوا؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ہانی کے گھر آرام فرما رہے تھے کہ جبرئیل امین علیہ السلام فرشتوں کے ہمراہ تشریف لائے۔
وہ دروازے سے داخل ہونے کے بجائے چھت پھاڑ کر اندر آئے، آپ کو جگایا اور حطیم کعبہ لے گئے۔
وہاں سے آپ کو زم زم کے کنویں پر لے جایا گیا، جہاں آپ کا قلب اطہر نکال کر زم زم کے پانی سے دھویا گیا اور اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا۔
بعد ازاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ثبت کی گئی۔ پھر آپ کو براق پر سوار کروا کر سفر معراج کا آغاز کیا گیا۔
سفرِ معراج کا آغاز
شبِ معراج ایک مبارک اور فضیلت والی رات ہے، جب محبوبِ خدا ﷺ نے مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک اور وہاں سے آسمانوں کا سفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔
اس بابرکت رات میں حضور نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی خصوصی سواری، البراق، پر سوار ہو کر خالق کائنات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
قرآن پاک کی سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں اس عظیم واقعے کا ذکر موجود ہے، جو اسراء یا معراج کے نام سے معروف ہے، اور احادیث میں بھی اس واقعے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
سفرِ معراج کتنے مراحل پر مشتمل تھا؟
سفرِ معراج تین مراحل پر مشتمل تھا۔ پہلے مرحلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا زمینی سفر کیا۔
دوسرے مرحلے میں مسجدِ اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ تک کا سفر ہوا، جو زمین سے کہکشاؤں کے اس پار نورانی دنیا تک کا تھا۔
تیسرے مرحلے میں سدرۃ المنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی زیادہ قریب ہونے کا سفر ہوا۔
یہ محبت اور عظمت کا ایسا سفر تھا جو محب اور محبوب کی خاص ملاقات کا رازدار تھا۔ سورۃ النجم میں اس ملاقات کا ذکر یوں کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے راز و محبت کی باتیں کیں۔
تین خوبصورت تحفے
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج پر گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین قیمتی تحفے عطا فرمائے۔
پانچ نمازوں کا تحفہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ عظیم تحفہ اللہ تعالیٰ سے امت کے لیے لے کر آئے۔ جیسے کوئی عزیز یا رشتہ دار ہمیں تحفہ دے تو ہم اسے بڑے شوق اور محبت سے قبول کرتے ہیں، ویسے ہی نماز ایک خدائی تحفہ ہے جس کا اہتمام کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔
سورۃ البقرہ کی آخری تین آیات:
یہ آیات لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ سے لے کر أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ تک ہیں۔ یہ آیات ایمان کی مضبوطی اور اللہ کی رحمت کی یاد دہانی کراتی ہیں۔
معافی کا وعدہ:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بندہ شرک سے بچا رہے گا، اس کی مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ شرک دنیا کا سب سے بڑا گناہ ہے، اور اللہ کی رحمت سے یہ وعدہ امت کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے۔
یہ تینوں تحفے امت مسلمہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتیں ہیں، جن کی قدر اور اہتمام کرنا ہم سب کا فرض ہے۔