پاکستانی معاشرت میں غیر متعدی امراض کا بڑھنا کیوں؟

نیوزڈیسک

0

اسلام آباد:ینگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور پناہ کے اشتراک سے نوجوانوں میں غیر متعدی امراض کے بڑھتے ہوئے خطرات اور ان کی روک تھام کے حوالے سے تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔

اس ورکشاپ کا مقصد نوجوانوں کو غیر متعدی امراض کے اثرات سے آگاہی فراہم کرنا اور ان بیماریوں کے تدارک کے لیے مؤثر حکمت عملیوں پر روشنی ڈالنا تھا۔

راولپنڈی میں انتیس جنوری (اے پی پی ) ینگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ )کے اشتراک سے نوجوانوں میں “غیر متعدی امراض میں تیزی سے اضافہ ،ان کی روک تھام اور میڈیا کا کردار“ کے موضوع پر ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا۔

ورکشاپ کے آغاز میں پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ثناء اللہ گھمن نے بتایا کہ پاکستان میں ہر دس میں سے چھ اموات غیر متعدی امراض کی وجہ سے ہوتی ہیں، جبکہ ان میں سے تین اموات قلبی امراض کے سبب واقع ہوتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں موٹاپے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے، اور چالیس فیصد سے زائد آبادی ذیابیطس کا شکار ہے، جن میں بیشتر افراد غیر صحت بخش غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں اور کسی قسم کی احتیاط نہیں برتتے۔

انہوں نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے تشویشناک اعدادوشمار کا حوالہ دیا، جن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی اوسطاً تجویز کردہ نمک اور چینی کی مقدار سے دوگنا استعمال کرتے ہیں، جو موٹاپے اور ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے رجحانات کی ایک اہم وجہ بن رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں چینی، نمک اور کولیسٹرول کی زیادہ مقدار والی غزاؤں پر انتباہی لیبل لگانے کی مہم شروع کرنی چائیے اور دیگر ممالک کی طرح شوگر ڈرنکس پر زیادہ ٹیکس عائد کرنے چائیے۔

ینگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر محمد یوسف خان نے کہا کہ غیر متعدی امراض سے نمٹنے کے لئے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ کئی نوجوان اور پیشہ ور صحافی غیر متعدی بیماریوں کا شکار ہوکر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

حالیہ دنوں میں کئی صحافی دل کے دورے کے باعث انتقال کر گئے جو کہ انتہائی افسوسناک اور تشویش کا باعث ہے۔

مزید پرئیے:https://urdu.thepenpk.com/?p=6056

انہوں نے کہا کہ بیشتر صحافی دفتری اور مالی دباؤ کاشکار رہتے ہیں اور خوراک میں بھی احتیاط نہیں برتتے جس کے نتیجے میں شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں کوتائی نہیں کرتے اور اپنا علاج کرانے کی طرف بھی توجہ نہیں دیتے۔

انہوں نے کہا صحافیوں میں غیر متعدی امراض کی روک تھام کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا اور اس ورکشاپ کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم غیر متعدی امراض کی روک تھام کے لئے تبادلہ خیال کریں اور اپنی تجاویز پیش کریں۔

ڈوئچے ویلے (DW) سے شازیہ محبوب نے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والے پیچیدہ خطرات اور صحت کے مسائل میں اضافے پر روشنی ڈالی، اور ان مسائل کے موسمیاتی تبدیلیوں سے براہ راست تعلق کو واضح کیا

انہوں نے سوشل میڈیا پر صحت سے متعلق جعلی خبروں کے پھیلاؤ پر بھی توجہ دلائی، اور میڈیا کے پیشہ ور افراد کی ذمہ داری پر زور دیا کہ وہ عوام کو نقصان دہ غلط معلومات سے محفوظ رکھیں۔

پی ٹی وی کے مارننگ شو کی میزبان ماہ نور قریشی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے صحت پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے عوام میں آگاہی پیدا کرنا مستقبل کے لیے ایک سنگین تشویش ہے، اور اس میں میڈیا کا کردار کبھی زیادہ اہم نہیں رہا۔

وائی جے اے کی فنانس سیکرٹری سونیا ستی نے کہا کہ صحافیوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ جو معلومات رپورٹ کرتے ہیں وہ درست ہوں۔

ورکشاپ کے اختتام پر وائی جے اے کے جنرل سیکرٹری ملک زبیر اعوان نے تمام مقررین اور شرکاء کے گراں قدر تعاون کو سراہتے ہوئے شکریہ کا اظہار کیا۔

آگاہی سیشن میں پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل اور صدارتی ایوارڈ یافتہ ثناء اللہ گھمن، ینگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر محمد یوسف خان، سیکرٹری جنرل ملک زبیر اعوان، سیکرٹری فنانس سونیا عدنان ستی، سینئر نائب صدر اشتیاق گوندل، جوائنٹ سیکرٹری انیلہ بشیر، پاکستان ٹیلی ویژن کی نیوز اینکر ماہ نور قریشی، ڈی ڈبلیو سے سینئر صحافی شازیہ محبوب تنولی، شمیم اشرف، شازیہ طاہر، چینی میڈیا کے خصوصی نمائندے ضمیر اسدی، عقیل انجم، عبد الہادی قریشی، شازیہ کیانی، رخسار علی، قمر گل، ممتاز ترک، فاطمہ زہرہ ، ایمان ملک، سلمیٰ ملک، اور دیگر نوجوان صحافی بھی شامل تھے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.