اسلام آباد:پاکستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد لاعلمی کی وجہ سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اذان فجر شروع یا ختم ہونے تک سحری کھانے کی گنجائش ہے۔
یہ تصور عوامی سطع پر بہت مقبول ہے، اور جب انہیں اس حوالے سے آگاہ کیا جاتا ہےتو وہ اپنی رائے پر اصرار کرتے ہیں۔
ازان فجر کا مقصد کیا ہے؟
ہر عقل مند انسان کے ذہن میں یہ بات بآسانی آسکتی ہے کہ اذان فجر صرف اسی صورت میں دی جاتی ہے جب فجر کا وقت داخل ہوچکا ہو، یعنی صبح صادق ہوچکی ہو، تب ہی اذان فجر دی جاتی ہے، ورنہ وہ اذان کس طرح اذان فجر ہوسکتی ہے۔
کیا سحری کے بعد روزہ قضا کا مستحق ہوگا؟
اب سوال یہ ہے جن افراد نے صبح صادق کے وقت کے بعد سحری کھاتے رہنے سے روزہ رکھا، چاہے انہیں اس بات کا علم کسی ذریعے سے پہلے ہوچکا تھا یا نہیں، دونوں صورتوں میں کیا ان کا روزہ قضا کا مستحق ہو گا؟ اور کیا ایسے روزے کو توڑنے کی صورت کفارہ لازم ہو گا؟
مفتیان کرام کا فتویٰ
مفتیان کرام کا کہنا ہے کہ صبح صادق کے آغاز کے ساتھ ہی روزے دار پر کھانا پینا بند کردنا واجب ہے، کیونکہ اصل دارومدار وقت پر ہے، اذان تو اختتام وقت کی علامت ہے۔
روزے کی قضا اور کفارہ کی تفصیلات
جو شخص سحری کے وقت کے اختتام کے بعد بھی جان بوجھ کر یا لاعلمی میں کھائے پیے، تو دونوں صورتوں میں اس پرصرف قضا لازم ہے۔ تاہم، کفارہ اس وقت لازم ہوتا ہے، جب کوئی شخص بلاعذر شرعی روزہ توڑ دے۔
مزید پرئیے:https://urdu.thepenpk.com/?p=6282