پشاور:دنیا بھر میں ہر سال بارہ ملین لڑکیوں کی کم عمری میں شادیاں کی جاتی ہیں۔پاکستان میں اٹھارہ اعشاریہ تین فیصد شادیاں اٹھارہ سال سے کم عمر میں ہو رہی ہیں، جن میں سے تین اعشاریہ چھ فیصد لڑکیاں پندرہ سال سے پہلے شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں۔
کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے گروپ ڈیولپمنٹ پاکستان (جی ڈی پی) اور پشاور یونیورسٹی کے شعبہ کریمنالوجی نے “سولہ دن کی سرگرمی” کے عالمی اقدام کے تحت ایک تقریب منعقد کی۔
اس تقریب کا مقصد چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے مؤثر نفاذ اور کم عمری کی شادی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے اجتماعی کوششوں کو فروغ دینا تھا۔
تقریب میں پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور طلبہ نے شرکت کی اور کم عمری کی شادی کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا۔
شرکاء نے خیبرپختونخوا میں اس سماجی مسئلے کے خاتمے کے لیے تجاویز اور عملی اقدامات پر روشنی ڈالی۔
افتتاحی خطاب کرتے ہوئے نوجوان سماجی کارکن علی حسن نے “سو لہ دن کی سرگرمی” کے تاریخی پس منظر اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
مزید پرئیے:https://urdu.thepenpk.com/?p=4189
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے مؤثر قانون سازی اور عوام میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈپٹی چیف خیبرپختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن، اعجاز محمد خان نے کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے کمیشن کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سماجی آگاہی، قانونی اصلاحات، اور متاثرہ بچوں کی بحالی ان کی ترجیحات میں شامل ہیں۔
شعبہ کریمنالوجی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر بشارت حسین نے نوجوانوں کو کم عمری کی شادی کے خاتمے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ترغیب دی۔
انہوں نے کہا کہ نوجوان نسل اس مسئلے کے خلاف جدوجہد میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
تقریب کے اختتام پر لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر آپریشن سید رحمان نے نکاح رجسٹریشن کے نظام کو بہتر بنانے اور اس کی مؤثر نگرانی پر زور دیا تاکہ کم عمری کی شادیوں میں کمی لائی جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کم عمری کی شادی ایک ایسا سماجی مسئلہ ہے جو دیگر مسائل کو جنم دے سکتا ہے، اور اس پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔