اٹھارواں پارہ : اس پارے میں تین حصے ہیں
۱۔ سورۂ مؤمنون (مکمل)
۲۔ سورۂ نور (مکمل)
۳۔ سورۂ فرقان (ابتدائی حصہ)
(۱) سورۂ مؤمنون میں سات باتیں یہ ہیں:
۱۔ استحقاقِ جنت کی سات صفات
۲۔ تخلیقِ انسان کے نو مراحل
۳۔ توحید
۴۔ انبیاء کے قصے
۵۔ نیک لوگوں کی چار صفات
۶۔ نہ ماننے والوں کے انکار کی اصل وجہ
۷۔ قیامت
۱۔ استحقاقِ جنت کی سات صفات:
(۱)ایمان ، (۲)نماز میں خشوع ، (۳)اعراض عن اللغو ، (۴)زکوۃ ، (۵)پاکدامنی ، (۶)امانت داری ، (۷)نمازوں کی حفاظت۔
۲۔ تخلیقِ انسان کے نو مراحل:
(۱)مٹی (۲)منی (۳)جما ہوا خون (۴)لوتھڑا (۵)ہڈی (۶)گوشت کا لباس (۷)انسان (۸)موت (۹)دوبارہ زندگی
۳۔ توحید:
آغازِ سورت میں توحید کے تین دلائل ہیں: (۱)آسمانوں کی تخلیق ، (۲)بارش اور غلہ جات ، (۳)چوپائے اور ان کے منافع۔
۴۔ انبیائے کرام کے قصے:
(۱) حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی کشتی کا ذکر۔
(۲) حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا ذکر۔
(۳) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم کا تذکرہ۔
۵۔ نیک لوگوں کی چار صفات:
(۱) اللہ سے ڈرتے ہیں ، (۲)اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ، (۳)شرک اور ریا نہیں کرتے ، (۴)نیکیوں کے باوصف دل ہی دل میں ڈرتے ہیں کہ انھیں اللہ کے پاس جانا ہے۔
۔ سورۂ نور (مکمل)
اس سورت میں مسلم معاشرے کو بہت سی اخلاقی اقدار عطا کی گئی، اور معاشرتی ضروریات کے لیے اخلاقی اور قانونی احکام دیے گئے۔
اس سورت کے آغاز ہی میں زنا کی حد بیان کی گئی۔ ہدایت کی گئی کہ یہ حد سب لوگوں کی موجودگی میں جاری ہوگی اور ان پر ترس کھانے کی ممانعت کی گئی۔ یہ ایسا کبیرہ گناہ ہے کہ حدیث کے مطابق اس سے ایمان رخصت ہوجاتا ہے۔پھر ان لوگوں کے بارے میں بعض اور احکام بیان کئے گئے۔ کسی کے اوپر جھوٹی تہمت لگانا کبیرہ گناہ ہے جس کی سزا 80 کوڑے ہے۔ اس لیے ایسی غلط بات کسی کے بارے میں بھی نہیں کرنی چاہئے۔ شرعا اس کے لئے چار گواہ ہونا ضروری ہے۔ گواہوں کے بغیر اس قسم کی کوئی بھی بات کسی کے لیے بھی کرنا سنگین جرم ہے۔ لیکن اللہ کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو خوشخبری دی کہ اگر ایسا ہو جائے اور پھر توبہ کر لو تو توبہ قبول ہو جائے گی۔
اس سورہ میں کافروں کے اعمال کی بے ثباتی مثالوں کے ذریعے سمجھائی گئی کہ وہ بالکل سراب کی مانند ہیں۔ محض دھوکہ ہے قیامت کے دن ان کا کوئی بدلہ نہیں۔
(۳) سورۂ فرقان کے ابتدائی حصے میں چار باتیں یہ ہیں:
(۱) توحید
(۲) قرآن کی حقانیت
(۳) رسالت
(۴) قیامت
(۱) توحید:
اللہ وہ ذات ہے جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے ، نہ اس کا کوئی بیٹا ہے ، نہ کوئی شریک ہے ، اس نے ہر چیز کو پیدا کرکے اسے ایک نپا تلا انداز عطا کیا ہے۔
(۲) قرآن کی حقانیت:
کافروں کی قرآن کے بارے میں دو قسم کی غلط بیانیاں ذکر کی ہیں:
1۔ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا افتراء اور اپنی تخلیق ہے جس میں کچھ دوسرے لوگوں نے تعاون کیا ہے۔
2۔ یہ گزشتہ قوموں کے قصے اور کہانیاں ہیں جو اس نے لکھوالی ہیں۔
(۳) رسالت:
کفار کا خیال تھا کہ رسول بشر نہیں بلکہ فرشتہ ہوتا ہے اور اگر بالفرض انسانوں میں سے کسی کو نبوت و رسالت ملے بھی تو وہ دنیاوی اعتبار سے خوشحال لوگوں کو ملتی ہے ، کسی غریب اور یتیم کو ہرگز نہیں مل سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس باطل خیال کی تردید واضح دلائل سے کی ہے۔
(۴) قیامت:
روزِ قیامت کافروں کے معبودانِ باطلہ سے اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو بہکایا تھا یا یہ راستے سے خود بھٹکے تھے؟ تو وہ اپنے عبادت گزاروں کو جھٹلادیں گے اور ان کی غفلت کا اقرار کریں گے ، پھر ان کافروں کو بڑے بھاری عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔